چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا

چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا
by داغ دہلوی

چھوڑتا مجھ کو نہ بسمل وہ مگر چھوڑ دیا
سر پہ احسان رہے اس لیے سر چھوڑ دیا

ٹکڑے ٹکڑے کیا ناصح کا گریباں میں نے
شکر ہے اس نے مرا دامن تر چھوڑ دیا

کام سب خانہ خرابی کے ہوئے ہیں تجھ سے
رحم کھا کر تجھے اے دیدۂ تر چھوڑ دیا

پھر کہاں تھا نہ یہاں تھا نہ وہاں تھا وہ شوخ
دامن اس کا جو سر راہ گزر چھوڑ دیا

لے گئی تھی ترے دیوانہ کو گھر سے وحشت
نہیں معلوم کہ جنگل میں کدھر چھوڑ دیا

داغؔ وارفتہ طبیعت کا ٹھکانہ کیا ہے
خانہ برباد نے مدت ہوئی گھر چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse