چھوڑیئے کس طرح سے مے نوشی
چھوڑیئے کس طرح سے مے نوشی
زور عالم رکھے ہے بے ہوشی
اک نظر اس کو دیکھنے پائیں
گو میسر نہ ہو ہم آغوشی
قید کرنا کسی کو ہے منظور
زلف کرتی ہے تجھ سے سرگوشی
ہوں میں سرگشتہ مثل ریگ رواں
کیا کہوں اپنی خانہ بردوشی
وصف میں اس دہن کے اے ؔجوشش
ہم نے کی اختیار خاموشی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |