چھٹا خطبہ، 2 دسمبر 1855ء

گارساں دتاسی

چھٹا خطبہ

حاضرین! اپنے دروس کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر سال ہندوستان کی ادبی تحریک کی ترقی آپ حضرات کے سامنے بیان کرتا رہوں۔ کم از کم اس زبان کی ترقی جو خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کی زبان کہی جاتی ہے اور جس کی دونوں شاخوں یعنی ہندو (ہندی) اور مسلمانی شاخ (اردو) کے سیکھنے کے لیے آپ لوگ یہاں آئے ہیں۔

اس سال اپنا یہ فرض، کم سے کم، صوبجات شمالی و مغربی کے متعلق میں اس وجہ سے اور بھی زیادہ آسانی کے ساتھ انجام دے سکتا ہوں کہ صوبجات شمالی و مغربی کی سرکاری رپورٹیں جو حکومت انگریزی کے Records میں شائع ہوئی ہیں مجھے حال ہی میں پہنچ گئی ہیں جن میں دیسی چھاپے خانوں اور گزشتہ سال کے شائع شدہ اخبارات و کتب کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میرے پاس گزشتہ پہلی جون کے آگرہ گورنمنٹٹ گزٹ کی ایک جلد بھی موجود ہے، جس میں ان کتابوں کی مکمل فہرست شائع ہوئی ہے۔

حضرات! ان چھاپے خانوں کی پہلی جنوری سنہ 1852ء تک کی حالت میں نے اپنے ایک سابقہ لکچر میں بیان کی تھی۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق صوبجات شمالی و مغربی میں اس وقت دیسیوں کے 32 چھاپے خانے تھے جہاں سے 26 ہندوستانی اخبارات شائع ہوتے تھے۔ سنہ 1851ء میں ان چھاپے خانوں سے 126 مختلف کتابیں شائع ہوئیں جو تقریباً سب کی سب ہندوستانی زبان میں تھیں۔ پہلی جنوری 1853ء تک چھاپے خانوں کی تعداد 37 تک پہنچ گئی اور ہندوستانی اخبارات کی تعداد 30 ہو گئی اور ان تمام کتابوں کی تعداد جو سن 1852ء میں چھپیں، 130 تھی آخر میں ہم کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پہلی جنوری 1854ء تک جو میرے معلومات کی آخری تاریخ ہے، چالیس چھاپے خانے اور 33 اخبارات ان صوبجات میں موجود تھے، اور 1852ء میں 195 کتابیں شائع ہوئیں اس وقت چند پران اخبارات جن سے میں آپ حضرات کا تعارف کروا چکا ہوں بند ہو گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی جدید اخبارات کی تعداد بمقابلہ اس تعداد کے جو پہلی جنوری 1852ء میں دی گئی تھی بقدرر 3 کے زیادہ تھی۔ اخبارات جو بند ہو گئے ان کے نام یہ ہیں؛ "زائرین ہند" بنارس کا، جس کے متعلق میں ایک مفصل آرٹکل روزنامہ Debats مورخہ 16 جنوری 1851ء میں شائع کرا چکا ہوں۔ باغ و بہار بھی اسی شہر سے شائع ہوتا تھا۔ نیز بنارس گزٹ جو باوجود اپنے انگریزی نام کے اردو میں شائع ہوتا تھا۔ دہلی کا فوائد الناظرین، میرٹھ کا مفتاح الاخبار، لاہور کا دریائے نور، شملہ اخبار، لدھیانہ کا "نورٌ علی نور" اور امرتسر کا باغ نور۔

صوبجات شمالی و مغربی میں پہلی جنوری 1854ء تک جو چالیس چھاپے خانے موجود تھے ان کی تقسیم اس طرح پر ہوئی تھی کہ ان سے دس آگرہ میں تھے، ایک بریلی میں، سات بنارس میں، ایک بھرت پور میں، دو کانپور میں، ایک کویل میں، دس دہلی میں، ایک گوالیار میں، ایک اندور میں، دو میرٹھ میں، دو لاہور میں، دو ملتان میں اور ایک سیالکوٹ میں۔

نئے اخبارات جن سے ابھی میں نے آپ کو آگاہ نہیں کیا یہ ہیں، آگرہ میں نورالابصار اور بدھی پرکاش، یہ دونوں پرچے حقیقت میں ایک ہی ہیں اور ایک ہی شخص کی ادارت میں شائع ہوتے ہیں، پہلا مسلمانوں کی اور دوسرا ہندوؤں کی زبان میں۔ دونوں کا اڈیٹر سدا سکھ لال نامی ایک لائق ہندو ہے، جو انگریزی میں بھی خاصی لیاقت رکھتا ہے اور کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ یہ اخبار بجا طور پر بہت کامیاب ہوئے کیونکہ ان میں زیادہ سے زیادہ دلچسپ مضامین اور خبریں شائع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تاریخ، جغرافیہ، ارضیات اور تعلیم پر اکثر پرمغز و مفید مضامین نکلتے رہتے ہیں۔ ان اخبارات کا طرز تحریر بہت پاکیزہ ہوتا ہے جس میں آورد نہیں ہوتی۔ کیونکہ ان میں بڑے بڑے اور شاندار الفاظ و استعارات کا استعمال نہیں کیا جاتا جسے مشرقی لوگ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔

بنارس سے ایک نیا اردو اخبار جاری ہوا ہے جس کا نام آفتاب ہند ہے۔ اس کا اڈیٹر بابو گوبند رگھوناتھ ہے جو سکھوں کی تاریخ اور دوسری قابل قدر تصانیف کا مصنف ہے۔ یہ اخبار اپنے متین طرز تحریر اور اعلی علمی اور ادبی مضامین کی وجہ سے جو اس میں عادۃً شائع ہوتے رہتے ہیں، بہت مشہور ہے۔

سنـ 1853ء سے ایک کامیاب اردو جریدہ فتح الاخبار ضلع علی گڑھ کے قصبہ کویل سے نکلتا ہے، جو باوجود اپنے شاندار نام کے بہت سادہ اور سلیس زبان میں نکلتا ہے۔ اس میں علاوہ روزمرہ کی خبروں اور آگرہ کے سرکاری اخبار کے اقتباسات کے، عدالتوں کے مقدموں کی کارروائی بھی چھپتی ہے۔

مغلیہ سلطنت کے قدیم دارالسلطنت دہلی سے باوجود ان پانچ اخباروں کے جو وہاں پہلے سے ہی موجود تھے، تین اردو اخبار سن 1853ء سے جاری ہوئے ہیں جن سے ان کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔ حالانکہ قسطنطنیہ میں ترکی زبان کے صرف پانچ اخبار شائع ہوتے ہیں۔ نئے اخباروں کے نام یہ ہیں؛

صادق الاخبار جسے مصطفیٰ خاں مصطفائی پریس کے مینیجر نکالتے ہیں۔ یہ پریس پہلے لکھنؤ میں تھا لیکن بعض حالات کی بنا پر یہ کارخانہ وہاں بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد مصطفی خاں نے اس کی دو نئی شاخیں ایک کانپور اور دوسری دہلی میں قائم کیں، یہ پرچہ مطبع کی دہلی والی شاخ سے شائع ہوتا ہے۔ اسی نام کا ایک دوسرا اخبار فارسی زبان میں بھی شائع ہوتا ہے۔ ان دونوں کو خلط ملط نہیں کر دینا چاہیے۔ دہلی کے دوسرے نئے اخبار نور مشرقی و نور مغربی ہیں۔ ان دونوں کا ایک ہی مقصد ہے، یعنی اہل ملک میں مفید معلومات کی اشاعت کی جائے اور ان کو بنی نوع انسان سے محبت کرنے کے حکیمانہ خیالات اور اصولوں سے باخبر کیا جائے۔ لیکن اپنے ناموں کے لحاظ سے پہلا مشرقی خیالات کا اظہار کرتا ہے اور دوسرا مغربی یعنی یورپی خیالات کا۔ گوالیار سے ایک شخص لکشمن پرشاد جو وہاں کی حکومت کا ملازم ہے، سنہ 1753ء سے ایک سرکاری اخبار نکالتا ہے جس میں دو کالم ہوتے ہیں، ایک اردو میں دوسرا ہندی میں۔ یہی لائق شخص اس سے قبل بریلی سے ایک اخبار نکالتا تھا، جس میں بعض حقیقی ادبی دلچسپی کے مضامین شائع ہوتے تھے، مثلاً ایک مضمون میں دہلی اور لکھنؤ کی اردو کا مقابلہ کیا گیا تھا۔

ملتان سے علاوہ اس اخبار کے جو وہاں پہلے سے موجود تھا، سن 1853ء سے ایک اور اردو اخبار شائع ہو رہا ہے۔ اس کا نام شعاع شمس (یعنی آفتاب کی کرنیں) ہے اور یہ مہاراجہ ہلکر کی سرپرستی میں ایک لائق درویش غلام نصیرالدین کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔

سب سے آخر میں سیالکوٹ سے ایک اخبار "چشمۂ فیض" کے نام سے ماہ جون 1853ء میں جاری ہوا ہے۔ پنجاب کے اس شہر اور ضلع (سیالکوٹ) میں جس قدر تعلیم کے فوائد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، غالباً تمام ہندوستان میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ کیونکہ دی فرینڈ آف انڈیا (The Friend of India) نے حال ہی میں یہ خبر شائع کی تھی کہ اس کے قرب و جوار کے نو سو پچاس دیہات میں وہ خاص ٹیکس جو حکومت برطانیہ نے جو دیسیوں کی تعلیم کے لیے قائم کیا تھا، پیشگی ادا کر دیا گیا، تاکہ مجوزہ مدارس بغیر کسی توقف کے فوراً کھول دیے جائیں۔ حضرات! میں کم و بیش محض ابتدائی درجے کی سائنس کی کتابوں کے بارے میں جو سن 1852ء و 1853ء میں صوبجات شمالی و مغربی میں شائع ہوئیں، کچھ عرض نہیں کروں گا۔ میں صرف ان کتابوں کا تذکرہ کروں گا جو ادب لطیف، فلسفے اور تاریخ کے زمرے میں شامل ہو سکتی ہیں۔ لہذا اس حیثیت سے میں چراغ حقیقت کا نام لوں گا جس میں صوفیوں کے مذہبی اصول سے بحث کی گئی ہے۔ یا تذکرۃ التمکین کا، جس میں مظاہر قدرت، قابل قدر آثار اور غیر معمولی جانوروں کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب میں کسی قدر اخلاق اور تاریخی حکایات سے بھی بحث کی گئی ہے یا عجائب روزگار کا جو درحقیقت اسی کتاب کا دوسرا ایڈیشن معلوم ہوتا ہے مگر نام بدل دیا گیا ہے۔ یا مخزن قدرت اور خیالات الصنائع کا جو اسی قسم کی کتابیں ہیں اور ان میں مذہبی نقطۂ نظر سے فطرت کی تصویر پیش کی گئی ہے۔

مجھے آپ کے سامنے منوسمرتی (Manu Smirti) کے اردو ترجمے "منوسن‏ہنتا" کا، عربی کے فاضل ادیب ابوالحسن بغدادی المعروف بہ قدوری کے رسالۂ فقہ کا، جس کا نام "مختصر قدوری" ہے اور رام چند کے رسالۂ "بھوت نہنگ" کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے۔ یہ ہندو ادیب جس کا میں آپ لوگوں سے تعارف کرا چکا ہوں، عیسائی ہو گیا ہے۔ اس کی اس کتاب کا مقصد ہندوستانیوں کو بھوت پر عقیدہ رکھنے سے باز رکھنا ہے۔ لیکن درآں حالانکہ یورپ میں لوگ اس قسم کی ارواح سے حقیقی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، ہندو لوگ یورپین اور عیسائی خیالات سے متاثر ہو کر اپنے ہم وطنوں کو ان پر عقیدہ رکھنے سے روکنے کی حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔

میں اس موقع پر اخلاقی ناولوں کو فراموش کرنا بھی نہیں چاہتا۔ مثلاً سندّھی کبدّھی، جس میں برے اور بھلے اخلاق کا فرق بتایا گیا ہے۔ یا بنجارا، جس میں دنیاوی چیزوں کی بے ثباتی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے یا فارسی تاریخ کشمیر مؤلفۂ محمد عظیم کا اردو ترجمہ۔ یا سبحان کی تاریخ فقہائے اسلام یا یوسف علی خاں کا سفرنامۂ یورپ یا اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہندوستان کے غیر معروف ترین حصوں میں فرماں روائے اندور کی سیاحت۔ آخر کی دونوں کتابوں کو شائع کرنے والا امین چند ہے۔

سب سے آخر میں قابل ذکر کتابیں امام بخش صہبائی کی تصانیف ہیں جن کے نام حدیقۃ البلاغت، انتخابات نظم اور قواعد اردو ہیں۔ ان کی قواعد اردو اس وجہ سے اور بھی زیادہ قابل قدر ہے کہ اس کے آخر میں ضرب الامثال اور محاورات کی ایک فہرست درج ہے۔ مولانا صہبائی، منشی عبدالکریم کے ہم عصر ہیں اور منشی صاحب اپنے تذکرۂ شعرا میں بیان کرتے ہیں کہ یہ قابل مصنف دہلی میں فارسی کے سب سے فاضل ادیب تصور کیے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے دہلی کالج فارسی کے پروفیسر مقرر کیے گئے۔ یہ دہلی کے مشہور محلے "چیلوں کے کوچہ" (یعنی طالب علموں کی گلی) میں رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پرانی وضع کا لباس پہنتے ہیں۔ ان کی ڈاڑھی سرخ رنگی ہوتی ہے اور چہرے پر چیچک کے نشان ہیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ساٹھ برس کی ہے۔

سن 1852ء میں جو کتابیں ایسی شائع ہوئی ہیں جن کا تعلق تخیل سے ہے، خواہ وہ اصل تصانیف ہوں یا دوسری ایشیائی زبانوں کے ترجمے، ان میں سے صرف ذیل کی چند کتابوں کا ذکر کرتا ہوں؛ کرشن بالپن، جس میں کرشن جی کے بچپن کا حال نظم میں بیان کیا گیا ہے؛ محمد حسین کی لیلیٰ مجنوں، سفینۂ ظرافت جو ظریفانہ نظم و نثر کا مجموعہ ہے؛ شرح قصائد سودا، جو ہندوستان کے زمانۂ حال کے شعراء کا بادشاہ مانا جاتا ہے؛ دیوان درد جو گزشتہ صدی کے بہترین شعرا میں تسلیم کیا جاتا ہے، رامائن کا ایک خوبصورت ہندی ایڈیشن جس میں لیتھو میں چھپی ہوئی تصویریں بھی ہیں اور انوار سہیلی کے انتخابات۔ انوار سہیلی فارسی اب کا شہ کار ہے جس کا حال ہی میں بہت صحیح ترجمہ مسٹر ایسٹ وک (Eastwick) نے انگریزی میں کیا ہے، جس سے ان کے ذوق سلیم کا پتہ چلتا ہے اور جن کو ہم ان کے متعدد ادبی خدمات کی وجہ سے ایک نیا ڈی‏ہامر (De Hammer) خیال کرتے ہیں۔

حضرات! میں تصور کرتا ہوں کہ آپ لوگ ہندوستان کے اس انگریز حاکم کی رائے سے اتفاق نہ کریں گے جو اپنی رپورٹ مورخہ 23 ستمبر سن 1854ء میں کتابوں کا اور خاص کر باغ و بہار، گل بکاؤلی، اخلاق جلالی، زبدۃ الخیال، پریم ساگر، ست سئی اور راج نتی کا (جو میری رائے میں ہندوستانی ادب میں بہت نفیس کتابیں ہیں) نہایت حقارت سے ذکر کرتا ہے اور بچوں کا کھیل سمجھتا ہے جس سے دل و دماغ میں ہرگز اعلیٰ اور شریفانہ خیالات پیدا نہیں ہو سکتے۔ یہ آگے چل کر کہتا ہے "نراج نتی" کے پڑھنے سے دماغ پر وہی اثر ہوتا ہے جو ایک مدہوش شرابی کو دیکھ کر ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کتاب ہتوپدیش کا صرف ہندی ترجمہ ہے، جس کی فضیلت کا ہر شخص معترف ہے۔ اس انگریز کا یہ بھی خیال ہے کہ ہندوستانی لٹریچر کو انگریزی زبان کے ترجموں سے نیا جنم لینا چاہیے۔ غالباً وہ بھولتا ہے کہ انہی کتابوں میں بعض اس قدر دلچسپ ہیں کہ یورپ میں انہیں اس قدر مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی کہ خالص یورپی کتابیں بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ مثال کے طور پر میں صرف الف لیلہ کا نام لیتا ہوں۔ یہ دنیا کی نہایت دلچسپ کتابوں میں سے ہے اور پھر لطف یہ کہ اس سے ہمیں مسلمانوں کے رسم و رواج کا بھی علم ہو جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کتاب محض تفنن طبع کے لیے ہے، لیکن کم از کم گلی‏ورس ٹریولس (Gulliverrs Travels) سے یقیناً کہیں زیادہ قابل وقعت ہے جس کے بارے میں ایک دوسرے انگریز افسر نے ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیے جانے کی رائے دی ہے۔

حضرات! میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو کتابیں اس قدر حقارت سے دیکھی گئی ہیں وہ محض افسانے ہیں، لیکن تاریخ بھی بسا اوقات جھوٹی ہوتی اور اس کی دروغ بافیاں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ جیسا کہ بائی‏رن (Byron) اپنی نظم لارا (Lara, Canto I, XI) میں لکھتا ہے؛ "۔۔۔ تاریخ کا قلم اس کی برائی یا بھلائی کو پورا کرتا ہے۔ وہ سچ کی طرح جھوٹ بولتا ہے اور اس کا جھوٹ بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے۔"

انگریزی زبان میں جو بہت سی کتابیں ہندوستانی میں ترجمہ ہوئیں ان میں ذیل کی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ ریورنڈ جے اے شرمن (Shurman) کی تاریخ متقدمین و متاخرین، گولڈ اسمتھ کی تاریخہائے روم و یونان، یا زمانۂ قدیم کے فلسفیوں مثلا سکندر اعظم، ڈی‏ماس تھنیز، سسرو کی سوانح زندگی جو پلوٹارک کے انگریزی ترجمے سے ترجمہ کی گئی ہیں۔ ایک کتاب جس کا نام بحری و بری انکشافات ہے، مارش مین (Marshman) کی تاریخ انگریزوں کا تسلط بنگال، سلطنت چین کی تاریخ جس کو جے ایف کارکوراں (Corcoran) نے جو ایک اینگلو انڈین اور پرجوش کیتھولک تھا، جیسوئٹ مشنریوں کے یک طرف معلومات سے مرتب کیا تھا۔

مستشرقیت نیز ہندوستانیوں کی دلچسپی کے نقطۂ نظر سے (جن کے لیے یہ کتابیں شائع کی گئی ہیں) یہ بات بہت ہی قابل افسوس ہے کہ جن کتابوں کا انگریزی سے ترجمہ ہوا وہ مشرقی ممالک کی تاریخ، سیاست اور خود مذاہب جیسے مضامین پر مشتمل ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کتاب کا ایڈن‏برا کیبنٹ لائبریری سے ترجمہ ہوا ہے اور وہ شاہان مغلیہ کی تاریخ ہے، یا مثلاً ہندوستان کا جغرافیہ مرے (Murray) کی ان‏سائیکلوپیڈیا آف جیاگرافی سے کیا گیا ہے۔ یا تاریخ فارس جو ماڈرن ٹریولر کا ترجمہ ہے۔ اور اسی قسم کی اور کتابیں ہیں۔ اس قسم کی کارروائی کے معنی حقیقتاً ہندوستان کو وحشی ملک سمجھنا ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہندوستانیوں کی بہ نسبت ان کے ملک کو زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اگر ہندوستان میں تحریری چیزیں نہ بھی ہوتیں تو اس صورت میں بھی ہم اسے بہ مشکل مناسب تسلیم کرتے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کرنی چاہیے کہ ہم کو جو کچھ بھی معلومات مشرق کے بارے میں حاصل ہیں وہ مشرقی اہل قلم ہی کی فراہم کردہ چیزوں کی بدولت ہے۔

بعض اوقات یہ بھی ہوا ہے کہ اصل کا مطلب غلط سمجھا گیا ہے۔ نیز اسماء و اعلام کی صورت کو بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔ اگر ان خامیوں پر ان خامیوں کا بھی اضافہ کا جائے جو ترجمے کے ساتھ لازمی ہیں تو ماحصل حقیقتاً ایک بہت ہی نامکمل کتاب ہو گی جس سے ملک کے باشندوں کو ان کے اپنے وطن اور اس کی تاریخ کے متعلق غلط معلومات پیدا ہوں گی۔ اگر ہندوستانی زبان میں تاریخی کتابیں نہیں ہیں تو بھی کوئی وجہ نہیں کہ انگریزی کو فارسی پر ترجیح دی جائے، کیوں نہ فارسی تاریخوں کا ترجمہ کیا جائے یا کم از کم فارسی تاریخوں پر ان کی بنیاد قائم کی جائے اور جو باتیں اس میں صراحت کے ساتھ غلط ثابت ہوں یا خلاف اخلاق تصور کی جائیں ان کو حذف کر دیا جائے۔ اس قسم کا ترجمہ آسان بھی ہو گا اور دیسی اہل قلم حضرات کی طبعیت کے موافق بھی۔ اس طریقے سے ان کے خیالات اپنے ہی مآخذوں پر مبنی ہوں گے اور ترجمے میں جو فاش غلطیاں ہوتی ہیں اس سے محفوظ رہیں گے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ مفہوم پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے مکھی پہ مکھی مار دیتے ہیں اور ہندوستانی الفاظ کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، خاص کر ان مترجموں کے ہاتھوں ایسے یورپی خیالات اور تلمیحات کی بڑی مٹی خراب ہوتی ہے جن سے وہ بالکل نابلد ہیں، اور ہوریس کی نصیحت سے ان کو دور کا تعلق بھی نہیں۔ "ذلیل نقال کے طور پر مکھی پر مکھی مارتے ہوئے لفظی ترجمہ کرتے ہیں۔"

مثلاً آنریبل مسٹر ڈبلیو میور نے جو صوبہ جات شمالی و مغربی کی انگریزی حکومت کے سیکرٹری ہیں ٹیلر (Taylor) کی ہسٹری آف محمڈن ازم کے ترجمے کو جسے دہلی کالج کے چار معلموں نے کیا ہے، بڑے غور سے ملاحظہ فرمایا۔ وہ میری طرح انہی نقائص کے شاکی ہیں۔ اس تاریخ کے پہلے ہی باب میں ان کو ایسے جملے ملے جو بالکل مبہم ہیں اور جن کا کوئی مطلب نہیں اور جو یقیناً غلط ہیں۔ ان میں سے اکثر کے متعلق انہوں نے اپنے نسخے کے حاشیے پر اشارہ کر دیا ہے۔ اس لائق عہدیدار کا بیان ہے کہ "یہ اور بھی زیادہ قابل افسوس وجہ سے ہے کہ وہ تمام مسلمان جو اپنے ادب میں اچھی استعداد رکھتے ہیں ان غلطیوں کو فوراً تسلیم کر لیں گے اور اس سے پوری تصنیف، بلکہ علی العموم ہمارے سارے ترجموں پر بڑا حرف آئے گا۔"

ایک بات اور بھی ہے کہ اس ترجمہ کا کام محض مسلمانوں ہی کے سپرد نہیں کیا گیا بلکہ چار میں صرف دو مترجم مسلمان تھے اور باقی ددو ہندو، جن حصوں کا مسلمان پروفیسروں نے ترجمہ کیا ہے وہ خاصے صحیح ہیں، لیکن یہ حالت اس حصے کی نہیں جسے ہندوؤں نے ترجمہ کیا ہے، اس میں عربی الفاظ کا املا تک غلط ہے۔ اس کے علاوہ ان ابواب میں ہندو مترجموں نے یورپی مصنف کے اس طرز تحریر کو جو اس نے قرآن اور اسلام کے متعلق استعمال کی ہے، نرم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ جو مسلمان اسے پڑھے گا وہ برہم ہو گا، حالانکہ پیغمبر (صلعم) اور مکے کے ساتھ معمولی تعظیمی الفاظ برابر استعمال کیے گئے ہیں، لیکن ان کا کتاب کے متن سے جوڑ نہیں بیٹھتا۔

حضرات! میں اس سے غافل نہیں ہوں کہ اس قسم کی مطبوعات کی سرپرستی سے حکومت برطانیہ کا مقصد محض یورپین خیالات کی اشاعت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ مسیحی خیالات کی اشاعت بھی ہے۔ یہ مقصد نہایت قابل قدر ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، مگر میرے خیال میں یہ مقصد دوسری طرح بھی حاصل ہو سکتا، مگر میرے خیال میں یہ مقصد نہایت قابل قدر ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، مگر میرے خیال میں یہ مقصد دوسری طرح بھی ہو سکتا ہے یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے، مشرقی تاریخی کتابوں کی اصلاح سے۔ فلسفہ اور مسیحی اخلاق کی کتابوں کے ترجمے میں کوئی ہرج نہیں، بلکہ اس قسم کا ترجمہ در حقیقت ہندوستان والوں کے لیے مفید اور نفع بخش ہو گا۔ اسی وجہ سے میں رابن‏سن کروسو (Robinson Crusoe) کے ترجمے کو اور خاص کر خدا کے وجود پر فنلن کے خیالات Pensees De Fenelon sur l’existence de Dieu جس کا ترجمہ ای ریون‏شا (E. Rwenshow) کے انگریزی ترجمے سے ہندوستانی میں بہت لیاقت کے ساتھ کیا گیا ہے، بہت پسند کرتا ہوں۔ در صورت امکان میں یورپ کے بہترین ادبی شہ کاروں کے ترجمے کا بھی بڑا مرید ہوں۔ چنانچہ مجھے اس بات کے معلوم ہونے سے بڑی خوشی ہوئی کہ بنارس کے "سدھاکر" اخبار میں شیکسپیئر کے مڈسمر نائٹس ڈریم کا ہندی ترجمہ شائع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ ایک بڑا معرکۃ الآرا کارنامہ ہے، اور اس سے بھی بڑا جو مرچنٹ آف وینس کے بنگالی ترجمہ کے وقت انجام دیا گیا جب کہ اسے خفیف ترمیمات کے بعد بالکل مشرقی بنا لیا گیا تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ بہت جلد ہندوستانی میں اس نامور ڈراما نویس کی ساری بہترین کتابوں کا ترجمہ ہو جائے گا اور کیا تعجب ہے کہ خود اس وقت دہلی اور آگرے کے تھیٹروں میں بہ مقابلہ پیرس کے حالیہ زمانے کے زیادہ کامیابی کے ساتھ میکبتھ کا قابل قدر المیہ کھیلا جا رہا ہو، اور ہندوستانی اپنی ہی زبان میں ان پاکیزہ اشعار کی داد دے رہے ہوں جو نامور شاعر ڈنکن کے قتل کے بعد میکبتھ کی زبان سے ادا کیے ہیں؛

میں سمجھا کہ کسی نے آواز دی کہ "بس اب سونا ختم کرو"! میکبتھ نے نیند کو، معصوم نیند کو قتل کر ڈالا،

وہ نیند جو انسانی فکر و پریشانی کی گرہوں کو سلجھاتی ہے،

جو روزمرہ کی زندگی کی موت ہے، اور تھکاوٹ کے لیے بمنزلہ غسل، جو دماغ کے لیے اکسیر مرہم اور فطرت کا بہترین علاج ہے۔

زندگی کی ضیافت کی لذتیں اسی کی رہین منت ہیں۔


رجوع بہ: خطبات گارساں دتاسی