چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
انتہا تھی یہ دل ربائی کی
مائلِ غمزہ ہے وہ چشمِ سیاہ
اب نہیں خیر پارسائی کی
دام سے اُس کے چھوٹنا تو کہاں
یاں ہوس بھی نہیں رہائی کی
ہوکے نادم وہ بیٹھے ہیں خاموش
صلح میں شان ہے لڑائی کی
اس تغافل شعار سے حسرت
ہم میں طاقت نہیں جدائی کی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |