چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
چھک گئے ہیں آج اک ساغر سے ہم
ہاتھ دھو بیٹھے مئے کوثر سے ہم
بت کدہ میں جا کے اس بت کا پتہ
پوچھتے پھرتے ہیں ہر پتھر سے ہم
قصد صحرا ہے دل ویراں کے ساتھ
اک بیاباں لے چلے ہیں گھر سے ہم
جب رگ جاں سے کمی کرتا ہے خون
چھیڑ دیتے ہیں اسے نشتر سے ہم
کس قدر کٹتی ہے راہ شوق جلد
تیز چلتے ہیں ترے خنجر سے ہم
کیا کہیں کس سے کہیں کس کے لیے
پھرتے ہیں چاروں طرف مضطر سے ہم
وہ ستم گر روبرو ہوگا تو داغؔ
کیا کہیں گے داور محشر سے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |