چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی، سو جب تک مردوں کو وصل نصیب نہیں ہوتا، وہ حسرت ہی سے اپنا دِل بہلاتے رہیں گے اور خوباں سے چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ سلسلہ کب شروع ہوا۔ وہ مرد کون تھا جس نے پہلی بار کسی عورت کو چھیڑا۔ اس کے متعلق تاریخ سے ہمیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ بہت ممکن ہے باغ عدن کی کسی گھنی جھاڑی کے عقب میں یا کسی سایہ دار درخت کے نیچے حضرت آدم ہی نے یہ سلسلہ شروع کیا ہو کیونکہ وہ جنت سے یونہی تو نکالے نہیں گئے تھے۔
اگر فرض کر لیا جائے کہ حضرت آدم ہی نے اس دلچسپ سلسلے کا آغاز کیا تھا تو ’’پہلی چھیڑ‘‘ کا تصور ممکن نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چھیڑ بے حد خام ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس چھیڑ میں انتہا درجے کی لطافت اور نزاکت ہو۔ دراصل اس کے متعلق ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ان کے حالاتِ زندگی اور ان کے کردار و اطوار سے ہم قطعاً نآشنا ہیں، اسی طرح ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اماں حوّا نے اس چھیڑ کو کس رنگ میں دیکھا اور ان کے دل و دماغ میں اس چھیڑ نے کس قسم کا ردّعمل پیدا کیا۔۔۔ طرح طرح کے تصّور دماغ میں آتے ہیں۔ پر کوئی صحیح تصویر نہیں بنتی۔ دوبرہنہ سائے سے، ایک خیالی باغ میں ہلتے نظر آتے ہیں، اس کے بعد حال کے نقوش کچھ اس طرح ابھرتے ہیں کہ تصور امریکہ کے کسی ننگے کلب کی طرف چلا جاتا ہے۔ باوا آدم، صاحب بن جاتے ہیں اور اماں حوّا ان کی میم۔ گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی۔
یورپ میں جہاں ترقی پسندی کا دور دورہ ہے اور تہذیب و تمدن کی چولی کے بند کھلے ہوئے ہیں۔ حسرتیں کم ہیں اور وصل زیادہ ہیں، لیکن اس کے باوجود وہاں چھیڑ چھاڑ عام دیکھنے میں آتی ہے۔ نقاب اٹھنے پر بھی وہاں کی بے نقاب عورتیں اسی طرح گھوری جاتی ہیں، جس طرح یہاں ہندوستان کی نقاب پوش عورتوں کے نقاب گھورے جاتے ہیں، چھیڑ چھاڑ بھی زوروں کی ہوتی ہے۔ ہندوستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ۔ دراصل جنسی بھوک کچھ اس قسم کی بھوک ہے کہ مٹائے نہیں مٹ سکتی۔ جب تک مرد اور عورت پاس پاس رہیں گے، یہ چھیڑ چلی جائے گی یا پھر کوئی ایسا زمانہ آئے کہ عورت کا وجود مرد کے لئے غیر ضروری ہو جائے تو چھیڑ کا یہ سلسلہ خودبخود ختم ہو جائے گا۔ اس سے پہلے اس کا خاتمہ ممکن نہیں۔
پچھلے دنوں گاندھی جی نے آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں کے بارے میں ارشاد کیا تھا، ’’ایک جو لیٹ کے سو سو رومیو موجود ہیں۔‘‘ اس پر لاہور میں وہ شور مچا تھا کہ خدا کی پناہ۔ مس ممتاز شاہ نواز اور دوسری خواتین نے گاندھی جی کے اس حملے کا بڑی شدت سے جواب دیا۔ بہت دیر تک مستورات کے مضامین ہندوستان کے اس نیم مستور لیڈر کے خلاف چھپتے رہے۔ گاندھی جی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انہوں نے ایک مضمون اور لکھا اور اس میں تہذیبِ نو کے گرفتار لڑکوں کو اپنے اہنسائی تیروں کا نشانہ بنایا۔ ان نوجوانوں سے گاندھی جی نے کہا، ’’تم بازار میں جب چلو تو اپنی نگاہیں نیچی رکھا کرو۔ اگر ہو سکے تو۔۔۔ ہُڈ پہنا کرو تاکہ تمہاری نگاہیں نوجوان لڑکیوں پر نہ پڑ سکیں اور تمہارا ایمان متزلزل ہونے سے بچ سکے۔‘‘
ہندوستان پر گاندھی جی کا اثر مسلم ہے، پر ان کا یہ مضمون نوجوانوں کے جذبات پر اثرانداز نہ ہو سکا۔۔۔ خوباں سے چھیڑ جاری رہی۔ نگاہوں پر سنسر نہ بیٹھ سکا۔ جذبات ویسے کے ویسے بے لگام رہے۔ گاندھی جی کی یہ سعی ویسے ہی ناکام رہی۔ جیسے بمبئی میں امتناعِ شراب کے بارے میں کانگریس گورنمنٹ کی کوشش۔
گاندھی جی کی یہ کوشش اگر بار آور ثابت ہوتی تو ذرا غور کیجئے کہ معاشرتی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب برپا ہو جاتا۔۔۔ گلی کوچوں اور بازاروں میں آپ کو مرد ماتھے پر ہُڈ باندھے اور نگاہیں نیچی کئے چلتے پھرتے نظر آتے۔ ٹریفک میں کئی مشکلات پیدا ہو جاتیں اور ہر روز حادثے وقوع پذیر ہوتے اور ان حادثوں کا شکار صرف مرد ہوتے۔ ماتھے پر ہُڈ (Hood) نگاہیں فرش پر، سامنے سے تیز رفتار موٹر آ رہی ہے۔ ادھر ادھر جوان عورتیں جا رہی ہیں۔ ہارن پر ہارن بجایا جا رہا ہے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ ایک عجیب مشکل میں آدمی پھنس جاتا۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر جاتا۔ وہاں بھی بیچارے مردوں کی آنکھوں پر ہُڈ چڑھا رہتا کہ کسی نرس کو نہ دیکھ پائیں۔
ہُڈ وڈ کی بات چھوڑیئے۔ روزمرہ کی زندگی بالکل بے کیف ہو جاتی، جذبات کا دریا بند پانی کی طرح ٹھہر جاتا۔ امنگیں، خیال آرائی کی تمام قوتیں، جذباتی ہیجان، غرضیکہ وہ سب کچھ جس سے انسانی زندگی میں حرارت پیدا ہوتی ہے، فنا ہو جاتا۔۔۔ عورت ہوتی، مرد بھی ہوتے لیکن وہ چنگاری نہ ہوتی جو ان دونوں کے تصادم سے پھوٹتی ہے۔ جوانیوں کے بھرے ہوئے جام ہونٹوں کے لمس کو ترستے رہتے۔ شوخیاں اور شرارتیں بالکل مفقود ہو جاتیں۔ چاروں طرف متانت اور سنجیدگی نظر آتی۔ چہرے لمبوترے ہو جاتے۔ ان کی تازگی، ان کی رونق اور ان کی دمک سب غائب ہو جاتی۔ زندگی کے اکتا دینے والے یک آہنگ تسلسل میں آدمی بالکل بے جان اور مردہ ہو کے رہ جاتا۔ ملک کی شاعری اور اس کے ادب کا ستیاناس ہو جاتا۔ فنونِ لطیفہ سب کے سب یتیم ہو جاتے۔۔۔ مگر یہ نہ ہوا، اس لئے کہ اس کا ہونا ممکن نہیں تھا۔
ہر بالغ مرد اور ہر بالغ عورت کو معلوم ہے کہ یہ چھیڑ چھاڑ کیوں ہوتی ہے۔ ا س لئے کہ یہ کوئی خلافِ عقل چیز نہیں۔ لیکن یہاں وہ چند بیانات دلچسپی سے خالی نہ ہوں گے جو میں نے بڑی کاوش سے چند نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے متعلق حاصل کئے ہیں۔ میں نے پہلے ذیل کے سوالات لڑکوں کے لئے تیار کئے۔
۱. ۔ تم لڑکیوں یا عورتوں کو کیوں چھیڑتے ہو۔۔۔ کیا اس کی کوئی وجہ تم بیان کر سکتے ہو؟
۲. ۔ کس قسم کی لڑکیوں یا عورتوں کو تم زیادہ چھیڑتے ہو؟
۳. ۔ تمہارے چھیڑنے کا طریقہ کیا ہے؟
۴. ۔ کیا تمہارے خیال میں لڑکیاں یا عورتیں ایسی چھیڑ چھاڑ پسند کرتی ہیں؟
۵. ۔ کوئی ایسا واقعہ بیان کرو جو اس قسم کی چھیڑ چھاڑ سے وابستہ ہو اور جس کے نقش تمہارے ذہن پر مرتسم ہو چکے ہوں۔
میں نے یہ پانچ سوال بارہ لڑکوں سے کئے، جن کی عمر سولہ سے لے کر چوبیس برس کے درمیان درمیان تھی۔ ان میں سے سات لڑکے جو تعلیم یافتہ تھے، مجھے پہلے سوال کا خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ باقی پانچ لڑکوں نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی، لیکن ان کے جواب ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے۔ جو کچھ انہوں نے اس ضمن میں کہا، اس کا خلاصہ یہ ہے،
’’ہم لڑکیوں اور عورتوں کو اس لئے چھیڑتے ہیں کہ ہمیں اس میں مزہ آتا ہے۔ زیادہ مزا ہمیں ان لڑکیوں کو چھیڑنے میں آتا ہے جو ہماری دراز دستیوں کے خلاف صدائے احتجاج بُلند نہ کر سکیں۔ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر خاموش ہو جائیں، گالیاں ان کی زبان کی نوک پر آ آ کر رک جائیں۔ غصے کے اس خاموش اظہار کا لطف بیان سے باہر ہے۔۔۔ ہم اس لئے ان کو چھیڑتے ہیں۔۔۔ کہ اس چھیڑ کی تحریک ہمارے اندر خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات بازار میں چلتے ہوئے کئی خوب صورت اور پرشباب لڑکیاں ہمارے پاس سے گزر جاتی ہیں مگر ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ دراصل چھیڑنا موڈ کی بات ہے، اگر موڈ ایسا ہو تو کوئی لڑکی ہماری چھیڑ سے بچ کر نہیں جا سکتی۔ بعض اوقات ہمیں گالیاں سننا پڑتی ہیں اور خطرناک حادثوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ہماری یہ سرگرمی کچھ دیر کے لئے ماند پڑ جاتی ہے، مگر پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔۔
اس میں شک نہیں کہ عورت کی بے بسی سے ہم ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر عورت کی بے بسی ہمیں بے بسی نظر نہیں آتی، اس لئے کہ ہماری پہنچ سے بہت دور رہتی ہے۔ اس کے خیالات و محسوسات سے چونکہ ہم غافل ہیں، اس لئے ہمیں وہ اونچے درخت کی ٹہنیوں سے الجھی ہوئی پتنگ دکھائی دیتی ہے جس پر کنکر مارنے کا خیال خواہ مخواہ دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔۔۔ آپ پوچھتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کو کیوں چھیڑتے ہیں، ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم لڑکیوں کو کیوں نہ چھیڑیں؟ اگر ہم انہیں نہ چھیڑیں گے تو اور کون چھیڑے گا۔ ہمارے اور ان کے تعلقات ہمیشہ سے کچھ اس قسم کے چلے آئے ہیں۔ یہ چھیڑ چھاڑ ضروری ہے۔
ان پانچ نوجوانوں میں سے ایک لڑکا جس کی عمر چوبیس برس کی تھی، بہت ہوشیار تھا۔ اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اچھی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کو کیوں چھیڑتے ہیں؟ اس کا جواب تو آپ کو کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا، لیکن اس کا جواب کیا ہے کہ میں نے پرسوں بازار میں جاتے ہوئے ایک کتے کی طرف دیکھا۔ ایک دم نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں نے اسے آنکھ مار دی۔ اب اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں نے اس کو آنکھ کیوں ماری تو میں آپ کو خاطر خواہ جواب نہ دے سکوں گا۔ اس لئے کہ میں اس لمحاتی جذبے کا تجزیہ نہیں کر سکتا جو اس عجیب و غریب حرکت کا باعث ہوا۔‘‘
دوسرے سوال کا جواب آٹھ لڑکوں نے یہ دیا کہ ہم ان لڑکیوں کو چھیڑنا پسند کرتے ہیں یا ان لڑکیوں کو چھیڑنے کے لئے ہمارے اندر اکساہٹ پیدا ہوتی ہے،جو جوان ہوں اور جنہیں اپنی جوانی پر ناز ہو۔ یہ ناز ان کی چال ڈھال میں صاف نظر آ جاتا ہے۔ دو لڑکوں نے اسی سوال کا جواب یوں دیا، ’’ہم صرف ان لڑکیوں کو چھیڑنا پسند کرتے ہیں جو ہمیں عین موقع پر پسند آ جائیں۔ بعض اوقات معمولی شکل و صورت اور معمولی جوانی کی لڑکیوں کو چھیڑنے کو دل چاہتا ہے اور بعض اوقات غیر معمولی طور پر حسین اور تیکھی لڑکیوں ہی کو چھیڑا جاتا ہے۔ یہ محض اکساہٹ کی بات ہے۔ ہمارا خیال ہے یہ اکساہٹ لڑکیاں خود پیدا کرتی ہیں۔ چھیڑنے کا مادہ تو ہمارے اندر موجود ہے مگر اس بارود کو آگ وہی دکھاتی ہیں۔۔۔‘‘
باقی دو لڑکوں نے کہا، ’’ہم صرف موٹی اور گول گپی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے ہیں۔ دبلی پتلی لڑکیوں کو ہم نے کبھی نہیں چھیڑا۔ موٹی اور بھاری جسم کی لڑکی کو چھیڑنے میں بہت مزا آتا ہے۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا، ’’بازار میں یا گلی میں جہاں کہیں موٹی لڑکی مجھے نظر آ جائے میں آنکھ ضرور مارتا ہوں۔ اس میں ایک خاص لطف آتا ہے مجھے، جسے میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری آنکھ اس کے نرم نرم جسم میں کھب گئی ہے۔ موٹی لڑکیاں یوں بھی زیادہ شرمیلی ہوتی ہیں۔ ان کو آنکھ ماری جائے تو شرم سے ان کے گدگدے گال جب تھرتھراتے ہیں تو ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے۔‘‘
تیسرے سوال کا جواب دس لڑکوں نے ایک جیسا دیا۔ انہوں نے کہا چھیڑنے کے طریقے یوں تو بہت سے ہیں، لیکن عام طریقہ یہی ہے کہ راہ چلتی لڑکی کو آنکھ ماری جائے۔ آنکھ سے چھیڑنا خطرناک نہیں، اس لئے کہ اس میں قربت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دور سے بھی آنکھ ماری جائے تو نشانے پر بیٹھتی ہے اور اپنا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ آنکھ محض شرارت کے طور پر ماری جاتی ہے، مگر اس جھپک میں یہ سوال بھی پوشیدہ ہوتا ہے، ’’کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘ صرف ایک پلک کے ذریعے سے یہ سوال جس میں ہزارہا سوال منجمد ہوتے ہیں، ایک سیکنڈ سے کم عرصے میں کر دیا جاتا ہے۔ اس کا جواب عام طور پر ایک نفرت انگیز اور خشم آلود گھبراہٹ ہوتی ہے جو لڑکی کے سارے جسم پر چشم زدن میں پھیل جاتی ہے۔ آنکھ مارنا اس لئے زیادہ خطرناک نہیں کہ اس شرارت کا ٹھوس ثبوت بہم پہنچانا بہت مشکل ہے۔ ذرا آنکھ جھپکائی، لڑکی کے چہرے پر انگارے سے بکھرے اور چل دیے۔
کبھی کبھی کوئی لڑکی مسکرا بھی دیتی ہے اور یہ مسکراہٹ دیر تک ہمیں یاد رہتی ہے، اس لئے کہ اس میں ایک ایسی تیتری کے رنگ ہوتے ہیں، جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ بس ایک لمحے کے لئے یہ مسکراہٹ ہماری آنکھ کی جھپک سے تیتری کے ہلکے پھلکے پروں کی طرح چھوتی ہے اور پھڑ پھڑا کر اڑ جاتی ہے۔۔۔ آنکھوں کو چھوڑ دیجئے تو جسم میں زبان کے علاوہ صرف ہاتھ باقی رہ جاتے ہیں جن سے چھیڑا جا سکتا ہے، ہم ان سے مدد لیتے ہیں، لیکن بہت کم، اس لئے کہ ہاتھ اکثر اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
بھیڑ بھاڑ زیادہ ہو، کوئی میلا ٹھیلا ہو، کھوے سے کھوا چھل رہا ہو، اس افراتفری میں کسی لڑکی کو اگر گد گدا دیا جائے تو اتنا زیادہ خطرناک نہیں ہوتا۔ نمائش میں رات کے وقت اس مقام پر جہاں اونچی سیڑھی پر سے بازی گر کو نیچے آگ کے کنوئیں میں چھلانگ لگانا ہوتی ہے کافی ہجوم ہوتا ہے۔ یہاں ہم اکثر لڑکیوں کے گد گدیاں کیا کرتے ہیں۔ بعض اوقات اپنا جسم اس کے جسم سے رگڑ کر ہم تیزی سے آگے نکل جایا کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کاندھے سے ہلکا سا دھکا بھی دے دیا جاتا ہے۔ بس ہم صرف یہی طریقے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
باقی دو لڑکوں میں سے ایک نے کہا، ’’میں نے آج تک کسی لڑکی کو آنکھ نہیں ماری۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ آنکھ ماری جاتی ہے اور میں نے کئی لڑکوں کو آنکھ مارتے بھی دیکھا ہے، مگر میں کوشش کے باوجود یہ چیز سیکھ نہیں سکا۔ میں جب کبھی ایک آنکھ سکیڑنے کی کوشش کرتا ہوں تو میری دوسری آنکھ بھی بند ہو جاتی ہے۔ میں اسی وجہ سے کسی کو آنکھ نہیں مارتا۔ میں نے ہاتھ سے بھی آج تک کسی لڑکی کو نہیں چھیڑا۔ میرا چھیڑ چھاڑ کا طریقہ سب سے جدا اور انوکھا ہے۔ میں راہ چلتی لڑکیوں سے وقت پوچھا کرتا ہوں۔ اس سے مجھے بہت لطف حاصل ہوتا ہے۔ وقت میں صرف انہی سے پوچھتا ہوں جن کی کلائی پر گھڑی بندھی ہو۔ آج تک کسی لڑکی نے مجھے وقت بتانے سے انکار نہیں کیا، لیکن بہت کم لڑکیاں مجھے گھڑی دیکھ کر وقت بتا سکتی ہیں۔ اس لئے کہ ایک دم جس کسی لڑکی سے وقت پوچھا جائے تو وہ سخت گھبرا جاتی ہے۔ اس گھبراہٹ میں وہ انکار بھی نہیں کر سکتی۔
میں خود اپنے آپ کو گھبرایا ہوا ظاہر کرتا ہوں جیسے مجھے ایک خاص وقت پر کہیں پہنچنا ہے۔ اس قسم کی اضطراری کیفیت اپنے اوپر طاری کر کے میں ادھر ادھر پریشانی کے عالم میں دیکھا کرتا ہوں، پھر جیسے اچانک میری نگاہیں اس کی گھڑی پر جا پڑی ہیں۔ میں پوچھا کرتا ہوں، ’’معاف فرمایئے گا، آپ کی گھڑی میں کیا وقت ہے؟‘‘ بس وقت پوچھا، جو کچھ اس نے بتایا، سنا اور تیز قدمی سے چل دیے۔ بعض اوقات شکریہ ادا کر دیا اور بعض اوقات مصنوعی گھبراہٹ میں یہ بھی بھول گئے۔ پانچ برس کے عرصے میں ایک سو ستاون لڑکیوں سے میں وقت پوچھ چکا ہوں۔ ایک بار جس سے میں وقت پوچھتا ہوں، اس کی شکل و صورت اچھی طرح یاد رکھتا ہوں تاکہ پھر اس سے وقت نہ پوچھوں۔‘‘
دوسرے لڑکے نے اس کا جواب یوں دیا، ’’مجھے صرف زبانی چھیڑ چھاڑ پسند ہے۔ میں نے پانچ چھ بار آنکھ بھی ماری ہوگی، مگر زیادہ لطف مجھے زبانی چھیڑ چھاڑ میں آتا ہے۔ بازار میں کسی لڑکی پر ایسا فقرہ کسنا کہ صرف وہی سمجھے، آس پاس کے لوگ نہ سمجھیں یقیناً ایک فن ہے، مگر ایسے فقرے ہر روز نہیں کسے جا سکتے۔ دماغ روشن اور حاضر ہو۔ کوئی محرک مل جائے تو فقرہ کسنے میں ایسا لطف آتا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘‘
چوتھے سوال کا جواب نو لڑکوں نے بالکل ایک جیسا دیا، ’’ہمارا خیال ہے کہ لڑکیاں ہماری چھیڑ چھاڑ کو پسند نہیں کرتیں، اس لئے کہ عورت اور مرد کے درمیان اس وقت تک مفاہمت کا کوئی رشتہ پیدا نہیں ہو سکتا جب تک وہ میاں بیوی نہ بن جائیں۔ عورت مرد کی طرف یوں دیکھتی ہے جیسے بکری قصائی کی طرف۔۔۔ مرد کا تصور ہمیشہ عورتوں کو عصمت کے تنے ہوئے رسے پر کھڑا کر دیتا ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات ہماری یہ چھیڑ چھاڑ محض ایک معصوم تفریح کے لئے ہو مگر عورت اس معصوم تفریح کو بھی خطرناک طور پر گناہ اور ثواب کے ترازو میں تولے گی۔۔۔ سچ پوچھئے تو ہمارے پیش نظر صرف عورت ہوتی ہے، جو کچھ اس کے عقب میں ہے ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔۔۔ وہ اگر خوش نہیں ہوتی ہے تو نہ ہو، اگر ناراض ہوتی ہے تو ہوا کرے، ہماری یہ چھیڑ جاری رہے گی۔‘‘
دو لڑکوں نے اس سوال کا جواب یوں دیا، ’’عورتیں ہماری چھیڑ چھاڑ پسند کرتی بھی ہیں اور نہیں بھی کرتیں۔ در اصل عورت ہاں اور نہ کا ایک نہایت ہی دلچسپ مرکب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں، اگر اس میں ہاں اور نہ کا یہ الجھاؤ نہ ہوتا تو ہم اسے کبھی نہ چھیڑتے۔ انکار اور اقرار کچھ اس طرح عورت کے وجود میں خلط ملط ہو گیا ہے کہ بعض اوقات اقرار انکار معلوم ہوتا ہے اور انکار اقرار۔۔۔ ہمیں تو اسی چیز نے مار رکھا ہے۔‘‘
ایک لڑکے نے اس سوال کا جواب بالکل مختلف طور پر دیا، ’’اجی صاحب چھوڑیئے۔ لڑکیاں اس چھیڑ چھاڑ کو بہت پسند کرتی ہیں۔ عورت کی جوانی اور مرد کی جوانی میں لمبا چوڑا فرق ہی کیا ہے۔ بس یہی ناکہ وہ شلوار قمیص یا ساڑھی پہن کر جوان ہوتی ہے اور ہم پتلون کوٹ کے اندر جوان ہو جاتے ہیں۔۔۔ میں تو صرف اس لئے لڑکیوں کو چھیڑتا ہوں کہ وہ اسے پسند کرتی ہیں۔۔۔ جب ہم انہیں چھیڑتے ہیں تو وہ تخلیے میں اپنی سہیلیوں کو اپنے تاثرات ضرور بتاتی ہیں۔ یہ تاثرات ان سہیلیوں پر عجیب و غریب کپکپاہٹیں طاری کرتے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں اور نہ مجھے معلوم ہے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ ہماری پھونکوں سے لڑکیوں کے کنوارپن کی لو لرزتی ہے تو ایک عجیب ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اگر اس حقیقت کا احساس مجھے نہ ہوتا تو میں ہر گز ہر گز کسی لڑکی کو نہ چھیڑتا۔‘‘
اب میں آخری سوال کے جوابات کی طرف آتا ہوں۔ ہر لڑکے نے ایک واقعہ بیان کیا جو اس قسم کی چھیڑ چھاڑ سے متعلق تھا، مگر ان میں سے صرف چند اس قابل ہیں کہ یہاں درج کروں۔ اکثر واقعات کچھ اس قسم کے تھے۔۔۔ ایک لڑکی کو چھیڑا گیا۔ اس نے شور مچا دیا جس کے باعث چھیڑنے والے کی بہت بدنامی ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ
سب سے دلچسپ داستان اس لڑکے نے مجھے سنائی، جس نے ایک بار کتے کو آنکھ ماری تھی۔ اس نے کہا، ’’آج سے چار برس پہلے کا ذکر ہے۔ امرتسر میں کانگرس تحریک کے باعث دھڑا دھڑ گرفتاریاں ہو رہی تھیں۔ جلیانوالہ باغ میں طلبا اور دوسرے لوگوں کا ایک میلا سا لگا رہتا تھا۔ ایک روز جب کہ میں اس باغ میں جانے کے لئے بازار طے کر رہا تھا، میری نگاہ بغیر کسی مطلب کے اوپر کو اٹھی۔ ایک سال خوردہ مکان کی بالکونی میں مجھے ایک سفید پگڑی نظر آئی۔ میں نے ایک لمحے کے لئے سمجھا کہ کوئی سکھ ہوگا، پر جب وہ پگڑی اونچی ہوئی تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی، جب میں نے سانولے رنگ کی ایک تیکھے نقشوں والی لڑکی کو دیکھا، اس نے سر پر پگڑی باندھ رکھی تھی۔ آہنی جنگلے میں سے اس کا چوڑی دار پائجامہ بھی مجھے نظر آیا۔ کمبخت نے اچکن بھی پہن رکھی تھی، جو اس کے بہت پھنس کر آئی تھی۔ اس نے میری طرف جب دیکھا تو میں نےبلند آواز میں کہا، ’’تسلیم عرض کرتی ہوں۔‘‘
یہ سن کر وہ بوکھلا سی گئی۔ ایک کھسیانی سی شرم آلود ہنسی اس کے ہونٹوں پر پھیلی اور میری تیز نگاہوں سے پہلو بچا کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ جلیانوالہ باغ میں اسٹوڈنٹ یونین کیمپ کے اندر جا کر میں نے اپنے چند دوستوں کو یہ واقعہ سنایا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ لڑکی ایک کانگرس ورکر کی بیوی ہے جو تین چار روز سے قید خانے میں ہے۔ لڑکی کی شادی کو مشکل سے چار پانچ مہینے ہوئے تھے۔ خاوند کی گرفتاری کے بعد اب وہ اکیلی اس مکان میں رہتی تھی۔ یہ تمام باتیں جب مجھے معلوم ہو گئیں تو میں سیدھا اپنے گھر روانہ ہوا جو وہاں سے دور نہیں تھا۔ گھر جا کر اپنے کمرے کو بند کر کے میں نے بلاؤز پہنا۔ بلاؤز کے نیچے میں نے ربڑ کی گیند کے دو ٹکڑے کر کے سینے پر جما لئے۔ پیٹی کوٹ پہنا، پھر ساڑھی پہنی۔ اس زمانے میں میرے بال بہت لمبے تھے۔ سیدھی مانگ نکال کر میں نے چند لٹیں ادھر اور ادھر چھوڑ دیں۔ ان دنوں عورتوں میں چپل پہننے کا رواج عام تھا، چنانچہ میں نے اپنا چپل ہی پاؤں میں رہنے دیا۔
یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب میں نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو مجھے خود پر عورت کا دھوکا ہونے لگا۔ لباس آدمی کو کتنا تبدیل کرتا ہے۔۔۔ خیر، بہن کا برقعہ اوڑھ کر میں چلا۔ گلی میں کئی بار مجھے ٹھوکریں لگیں۔ اس لئے کہ برقعہ پاؤں میں الجھ الجھ جاتا تھا۔ عورتوں کی چال بھی مجھ سے نہیں چلی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی دامن گیر تھا کہ کوئی راستے میں بھانپ لے گا تو بہت خفیف ہونا پڑے گا۔ بہرحال ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے میں نے تین بازار طے کئے اور اس مکان پر پہنچ گیا۔ حلوائی کی دکان کے ساتھ ہی اس مکان کی سیڑھیاں تھیں۔ میں نے منہ پر سے برقعہ ذرا اونچا کیا اور اوپر چڑھ گیا۔ دل میرا دھک دھک کر رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بس کوئی دم میں سینے سے نکل کر سیڑھیوں پر آ پڑے گا لیکن شرارت کا تصور اس کمزوری پر غالب آیا۔
میں نے دستک دی اور دستک دیتے ہی سوچ لیا، اگر کوئی مرد سامنے آ گیا تو میں کچھ کہے سنے بغیر نیچے چلا آؤں گا اور اگر ضرورت پڑی تو آواز میں باریکی پیدا کر کے کہہ دوں گا۔ معاف کیجئے گا، میں غلطی سے ادھر چلی آئی۔۔۔ چنانچہ یہ سوچتے ہی میں نے ایک بار اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ قدموں کی چاپ سنائی دی۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرا دل پہلو سے نکل کر اندر کمرے کے فرش پر چل رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ بھاگ جاؤں، پر اندر سے کنڈی کھل چُکی تھی۔ میں نے اٹھا ہوا برقعہ نیچے چھوڑ لیا۔ دروازہ کھلا۔ وہ لڑکی میرے سامنے تھی۔ مجھ سے زیادہ بوکھلائی ہوئی۔ سر کے بال پریشان ہو رہے تھے۔ مردانہ قمیص اس نے پہن رکھی تھی۔ پائجامہ وہی تھا چوڑی دار۔ کاندھے پر اس نے دوپٹہ بڑی بے ترتیبی سے ڈال رکھا تھا۔ برقعہ پوش عورت کو دیکھ کر اس کے ہوش بجا ہوئے۔ میرے بھی سانس میں سانس آیا۔ اس نے کہا، ’’اندر آ جایئے‘‘ میں بے دھڑک اندر چلا گیا۔
ایک بڑا کمرہ تھا۔ اس کو طے کر کے ہم دوسرے کمرے میں پہنچے جو بہت ہی چھوٹا تھا۔ اس میں دو کرسیاں اور ایک چارپائی پڑی تھی۔ اس چارپائی پر مجھے وہ اچکن دکھائی دی جس کو اس نے پہن رکھا تھا۔ اس کی ایک آستین الٹی ہوئی تھی۔ پاس ہی سفید پگڑی دھری تھی۔ اس نے کئی بار مجھے سر تا پا دیکھا۔ میری آمد اس کے لئے ایک معما بنی ہوئی تھی۔ اس چھوٹے کمرے میں پہنچ کر اس نے مجھ سے کہا، ’’تشریف رکھئے!‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے کرسی پر سے چند کتابیں اٹھا کر چارپائی پر رکھ دیں۔ میں اس کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب میری پریشانی کسی حد تک دور ہو گئی تھی مگر میرا دھیان دروازے کی طرف تھا، جو وہ کھلا چھوڑ آئی تھی۔ بے شمار خیالات میرے دماغ میں آ رہے تھے۔ جب میں کرسی پر بیٹھ گیا تو اس نے مہمان نوازانہ انداز میں کہا، ’’برقعہ اتار لیجئے، میں نے اس کے جواب میں ادھر ادھر دیکھا تو اس نے مجھے یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’یہاں میرے سوا کوئی نہیں۔‘‘
میں دل ہی دل میں ارادہ کرچکا تھا کہ کوئی بات نہ کروں گا، مگر یہ الفاظ غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکل گئے، ’’آپ باہر کا دروازہ بند کر دیجئے۔‘‘ لہجہ میرا اپنا تھا، مگر اسے شک نہ ہوا۔ وہ فوراً اٹھی اور دروازہ بند کرنے چلی گئی۔ میں نے اس دوران میں حالات پر غور کیا اور چہرے پر سے نقاب ہٹا لی۔ سر میرا برقعے کی ٹوپی میں تھا۔ دونوں کان بھی اس میں چھپے ہوئے تھے۔ چہرہ بالوں سے بے نیاز تھا۔ اس لئے میں نے سوچا کہ اس کو صدمہ اچانک نہیں پہنچے گا۔ دروازہ بند کر کے وہ آئی۔ میں نے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔ وہ چارپائی پر بیٹھی اور بیٹھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی جسے بھڑنے اسے کاٹ کھایا ہے۔ میری طرف دیکھ کر اس کے منہ سے مدھم سی چیخ نکلی۔۔۔ انگریزی ضرب المثل کے مطابق بلی بیگ میں سے نکل چُکی تھی۔ میں نے برقعہ اتار دیا۔ اس کی ٹانگیں چوڑی دار پائجامے میں کانپ کانپ گئیں۔ میری جرات بڑھ گئی۔ مسکرا کر میں نے کہا، ’’آداب عرض کرتی ہوں۔‘‘
وہ مجھے پہچان گئی تھی اور خوف نے اس کو جھنجوڑ دیا تھا۔ میں نے اس کی خوف زدہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا، ’’آپ کو مردانہ لباس خوب سجتا ہے، کیا میرے بدن پر آپ کا یہ لباس اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے، اگر چھت نیچے آ رہتی یا آسمان سے ناگہانی طور پر بجلی گرپڑتی تو اس کو اتنا خوفناک تعجب کبھی نہ ہوتا جتنا کہ میری آمد پر اسے ہوا۔ اس کی زبان بالکل گنگ ہو گئی تھی، اگر وہ چیخنا بھی چاہتی تو ناکام رہتی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ترس آیا۔ چنانچہ میں اپنا برقعہ اٹھا کر کہا، ’’گھبرایئے نہیں، میں اب چلتا ہوں۔ مذاق ختم ہو گیا۔‘‘ جب میں نے وہاں سے چلنے کا قصد کیا تو اس نے لرزاں آواز میں کہا، ’’ذرا ٹھہریئے۔‘‘
اس نے میرے بلاؤز کی طرف دیکھا جس میں سے گیند کے ٹکڑے نیچے ڈھلک آئے تھے۔ شرم سے اس کے کان کی سانولی لویں سُرخی مائل ہو گئیں، لیکن بے اختیار اس کو ہنسی آ گئی۔ میں بھی ہنس پڑا۔ اس سے اس کا خوف کچھ دور ہوا، چنانچہ اس نے غیر لرزاں آواز میں کہا، ’’آپ اس لباس میں گھر واپس جا سکیں گے؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’کیوں نہیں؟ آیا بھی تو اسی لباس میں تھا۔‘‘ لیکن یہ کہتے ہی ایک دم اندرونی طور پر مجھے محسوس ہوا کہ میں اس لباس میں ہرگز ہرگز ایک قدم بھی نہ اٹھا سکوں گا۔ اس نے میرا جواب سن کر کہا، ’’آپ سوچ لیجئے۔‘‘
اور جب میں نے سوچنا شروع کیا تو یہ احساس اور زیادہ پختہ ہوتا گیا۔ میں نے سوچا کہ ساڑھی اتار دوں، لیکن بلاؤز اور پیٹی کوٹ میں بالکل اسٹیج کا مسخرہ بن جاتا، پھر خیال آیا کہ سب کچھ اتار دوں اور ساڑھی کا تہمد بنا لوں، مگر یوں لوگوں کی نگاہیں اور بھی میری طرف اٹھتیں۔ پھر سوچا کہ جیسے آیا تھا ویسے ہی چلوں، مگر برقعے کا تصور اب ایک بہت بڑا بوجھ محسوس ہونے لگا۔ میں نے گھبرا کر اس سے کہا، ’’ اگر آپ اجازت دیں تو یہاں تھوڑی دیر بیٹھ جاؤں۔‘‘
اس نے میری درخواست رد نہ کی۔ ’’تشریف رکھئے۔‘‘ لیکن فوراً ہی اسے کوئی خیال آیا اور وہ مضطرب ہو گئی، ’’آپ اب تشریف لے جایئے۔ میرے فادر اِن لا آنے والے ہیں۔۔۔ میں بھول ہی گئی تھی۔۔۔ جایئے، یہاں سے جلدی چلے جایئے۔‘‘ میں اس قدر گھبرا گیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ میرے سارے کپڑے اتار کر کسی نے مجھے ننگا کر دیا ہے۔ میں بجائے اٹھنے کے اور جم کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر اس نے مجھ سے زیادہ گھبرا کر کہا، ’’میرے فادر اِن لا آنے والے ہیں۔۔۔ بس اب وہ آتے ہی ہوں گے۔۔۔ آپ چلے جایئے۔‘‘
مجھے اپنے آپ پر غصّہ آ رہا تھا، اسی غصّے میں اس سے میں نے تیز لہجے میں کہا، ’’تو میں کیا کروں۔ اس لباس میں مجھ سے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جائے گا۔‘‘ موقع کی نزاکت کے باوجود اسے ہنسی آ گئی، لیکن میری سنجیدگی ویسی کی ویسی قائم رہی۔ اس نے چند لمحات غور کیا اور پھر کہا، ’’آپ یہ اچکن پہن لیجئے۔ میں آپ کو قمیص اور پائجامہ نکال دیتی ہوں، مگر پرماتما کے لئے جلدی کیجئے۔ اب کچھ سوچیئے نہیں۔‘‘
اس نے میرے جواب کا انتظار نہ کیا۔ چارپائی کے نیچے سے ایک ٹرنک کھینچ نکالا، اس میں سے جلدی جلدی اس نے ایک قمیص نکالی۔ پائجامہ وہ دیر تک ڈھونڈتی رہی مگر اسے نہ ملا۔ میں اس دوران میں بلاؤز اتار کر قمیص پہن چکا تھا۔ جب پائجامہ نہ ملا تو اس نے کہا، ’’آپ یہیں ٹھہریئے، میں یہ پائجامہ اتار کر آپ کو دے دیتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھرتی سے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ دو منٹ شدید قسم کے اضطراب میں گزرے۔ اس کے بعد وہ آئی۔ پائجامہ دے کر وہ باہر چلی گئی، ’’اب جلدی پہن لیجئے۔‘‘ میں نے افراتفری میں یہ پائجامہ پہنا۔ چونکہ چوڑیاں کافی زیادہ تھیں۔ اس لئے کھینچ تان کر پورا آ ہی گیا۔ اتنے میں آواز آئی، ’’پہن لیا؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں پہن لیا۔‘‘ یہ سن کر وہ اندر آئی اور کہنے لگی، ’’ پرماتما کے لئے یہاں سے چلے جایئے۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں آ نہ جائیں۔‘‘ میں نے اچکن پہنی۔ برقعہ ہاتھ میں لیا اور وہاں سے چلنے ہی والا تھا کہ اس نے کہا، ’’ یہ ساڑھی وغیرہ تو لیتے جایئے۔‘‘
میں نے بلاؤز، ساڑھی، پیٹی کوٹ اور ربڑ کی گیند کے دونوں ٹکڑوں کی طرف دیکھا اور باہر نکلتے ہوئے کہا، ’’ یہ سب چیزیں یہیں پڑی رہیں۔‘‘ اس نے اس کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ میں دروازے تک پہنچ گیا۔ وہ میرے ساتھ ساتھ آئی جب دروازہ کھول کر میں باہر نکلا تو اس نے مسکرا کر کہا، ’’آدابِ عرض کرتا ہوں۔۔۔‘‘ اس کے بعد میری اس سے ملاقات نہ ہوئی، کیونکہ وہ دوسرے روز ہی کہیں چلی گئی، نہ معلوم کہاں۔ میں نے اس کا بہت کھوج لگایا مگر کچھ پتہ نہ چلا، اس کی اچکن اور پائجامہ ابھی تک میرے پاس محفوظ پڑا ہے۔ شاید میری ساڑھی، بلاؤز اور پیٹی کوٹ بھی اس کے پاس ابھی تک محفوظ ہوں اور گیند کے وہ دو ٹکڑے بھی۔ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہ واقعہ ایسا نہیں کہ ہم دونوں میں سے کوئی بھول سکے۔‘‘
اس لڑکے نے جس کو راہ چلتی لڑکیوں سے وقت پوچھنے میں مزا آتا تھا۔ ذیل کا واقعہ بیان کیا، ’’میں جب بمبئی گیا تو وہاں سڑکوں پر ان گنت لڑکیاں دیکھ کر میری طبیعت بہت خوش ہوئی کیونکہ ان میں سے اکثر اپنی کلائیوں پر گھڑی باندھتی تھیں۔ ایک روز کا ذکر ہے، ناگ پاڑہ میں جہاں یہودیوں کی آبادی ہے، فٹ پاتھ پر میں نے ایک پارسی لڑکی دیکھی، جو بڑی تیز قدمی سے سامنے باٹلی والے ہسپتال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس کی گوری گوری کلائی پر کالے تسمے کے ساتھ گھڑی بندھی تھی۔ اس کے اور میرے درمیان قریباً ایک فرلانگ کا فاصلہ تھا جو میں نے چٹکیوں میں طے کر لیا۔ اس سے دو قدم آگے نکل کر میں دفعتاً مڑا، ’’تمہاری گھڑی ماکٹلاوا گا؟‘‘ میں نے اس سے گجراتی زبان میں وقت پوچھا۔ اس نے اپنی کلائی اونچی کی تو گھڑی ندارد۔
’’ماری گھڑیاں کاں چھے۔‘‘ اس نے گھبرا کر کہا۔ میری گجراتی ختم ہو گئی۔ میں نے اسے ہندوستانی میں جواب دیا، ’’آپ کی گھڑی مجھے کیا معلوم کہاں ہے؟‘‘ صاحب اس نے تو چلانا شروع کر دیا۔ ایک تو گجراتی زبان، اس پر اس پارسی لڑکی کا چیخ چیخ کر بولنا، میرے اوسان خطا ہو گئے۔ گھڑی میں نے چند منٹ پہلے اس کی کلائی پر دیکھی تھی، پر اب ایک دم خدا معلوم کہاں غائب ہو گئی تھی۔ وہ برابر کہے جا رہی تھی۔ ’’تمے اَج لیدی ہسّے۔‘‘ یعنی تم نے ہی لی ہے اور میں اسے بے سود یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے آپ کی گھڑی نہیں لی ہے، اگر میں نے آپ کی گھڑی لی ہوتی تو آپ سے وقت ہی کیوں پوچھتا۔۔۔ اس کو بھی چھوڑیئے، میں نے گھڑی آپ کی کلائی سے کیسے اتار لی؟
اس کا شور سن کر فٹ پاتھ پر کئی یہودی اور کرسچین جمع ہوگئے۔ میں ان میں گھرگیا۔ بھانت بھانت کی بولیاں شروع ہوگئیں۔ کبھی میں انگریزی میں اپنی بے گناہی ثابت کرتا کبھی ہندوستانی میں، مگر سب اسی کے طرفدار تھے، میں سخت گھبرا گیا۔ قریب تھا کہ میں ان سب سے کہہ دوں، ’’تم جاو جہنم میں۔ نہیں مانتے تو نہ مانو۔‘‘ کہ میری نگاہ سڑک پر ایک چھوٹے سے بچے پر پڑی۔ اس کے ہاتھ میں مجھے کالا فیتا نظر آیا۔ کالے فیتے کےساتھ گھڑی بھی لٹک رہی تھی۔ میں چلایا، ’’وہ دیکھو، اس بچے کے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ سب سے پہلے اس لڑکی نے بچے کی طرف دیکھا اور کہا، ’’میری گھڑی۔‘‘ بچے کے ہاتھ میں گھڑی اسی کی تھی۔ ایک بڈھی یہودن نے بڑھ کر اس بچے سے گھڑی لی اور اس پار سی لڑکی کو دے دی۔ میں نے کوئی بات کرنی مناسب نہ سمجھی۔ اس لئے کہ اس وقت میں اپنے آپ کو ہیرو سمجھ رہا تھا۔
اس لڑکے نے جس کا یہ کہنا تھا کہ لڑکیاں چھیڑچھاڑ پسند کرتی ہیں، یہ واقعہ بیان کیا، جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ لڑکیاں ہماری چھیڑ چھاڑ پسند کرتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو وہ ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم انہی چھیڑیں۔ اس واقعے سے جو میں اب بیان کرنے والا ہوں، آپ اس کی تصدیق کرسکیں گے۔ آج سے اڑھائی برس پہلے کا ذکر ہے، جب میرے خیالات آج سے مختلف تھے۔ ان دنوں مجھ پر کسی سے عشق کرنے کی دھن سوار تھی، چنانچہ ہر وقت اداس اداس رہتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھ کہ میرے سارے وجود پر ایک ناقابل بیان اضمحلال طاری ہے۔ یہ اداسی اور یہ اضمحلال اس روز بہت ہی زیادہ بڑھ گیا جب مجھے اپنے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ وہ گلی میں ایک لڑکی سے عشق لڑا رہا ہے۔ اس کے عشق کی داستان سن کر مجھے بے حد افسوس ہوا۔ اس قدر شک آیا کہ میری آنکھو میں آنسو بھر آئے۔ اب میں نے ارادہ کرلیا کہ ہر روز اس گلی سے گزرا کروں گا اور اسی لڑکی سے رابطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ ارادہ میں نے اس لئے کیا کہ میری نظر میں کوئی ایسی لڑکی تھی ہی نہیں جس سے اس قسم کا رشتہ پیدا کیا جاسکتا ہو۔
سو جناب، میں پندرہ بیس روز تک متواتر ایک ہی وقت پر اس گلی میں سے گزرتا رہا۔ وہ لڑکی اس دوران میں مجھے کئی بار نظر آئی۔ ہر مرتبہ اس نے میری طرف دیکھا، مگر بات اس سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ ایک روز دوپہر کو جب کہ گلی بالکل خالی تھی، میں ادھر سے گزرا۔ جب میں موڑ مڑا تو مسجد کے پاس دفعتاً ایک برقعہ پوش عورت مجھے نظر آئی۔ میں جب اس کے پاس سے گزرا تو اس نے برقعے سے ہاتھ نکال کر میرا بازو پکڑ لیا اور بلند آواز میں کہا، ’’کیوں وے گشتیا، توں ہر روز ایدھر دے پھیرے کیوں کرنا ایں۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ آوارہ گرد کہیں کے، تو ہر روز یہاں کے پھیرے کیوں کرتا رہتا ہے۔۔۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ بخدا، میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ میرا حلق خشک ہو گیا میں بمشکل یہ کہہ سکا، ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں تو کبھی ادھر سے نہیں گزرتا۔‘‘
وہ ہنسی، برقعے کی جالی میں سے اس کی آنکھیں مجھے نظر آئیں۔ میرا خوف دور ہو گیا۔ میں نے اپنا بازو چھڑا لیا اور اس کے کولہے پر اس زور سے چٹکی بھری کہ وہ بلبلا اٹھی۔ ’’اللہ کر کے مر جائیں۔۔۔ تیرا ککھ نہ رہے۔۔۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ خدا کرے تومر جائے۔ تیرا کچھ باقی نہ رہے۔۔۔ میرا سب کچھ باقی رہا، وہ بھی باقی رہی اس لئے کہ میرا خوف دور ہو گیا تھا اور اس کی خفگی نہ رہی۔‘‘
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |