ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ڈر تو مجھے کس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
پر حال یہ افشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ناصح یہ گلہ کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
تو کب مری سنتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میں بولوں تو چپ ہوتے ہیں اب آپ جبھی تک
یہ رنجش بے جا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کچھ غیر سے ہونٹوں میں کہے ہے یہ جو پوچھو
تو ووہیں مکرتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کب پاس پھٹکنے دوں رقیبوں کو تمہارے
پر پاس تمہارا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ناصح کو جو چاہوں تو ابھی ٹھیک بنا دوں
پر خوف خدا کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا کیا نہ کہے غیر کی گر بات نہ پوچھو
یہ حوصلہ میرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا کہئے نصیبوں کو کہ اغیار کا شکوہ
سن سن کے وہ چپکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مت پوچھ کہ کس واسطے چپ لگ گئی ظالم
بس کیا کہوں میں کیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
چپکے سے ترے ملنے کا گھر والوں میں تیرے
اس واسطے چرچا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہاں تنگ دہانی کا نہ کرنے کے لیے بات
ہے عذر پر ایسا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اے چارہ گرو قابل درماں نہیں یہ درد
ورنہ مجھے سودا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہر وقت ہے دشنام ہر اک بات میں طعنہ
پھر اس پہ بھی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کچھ سن کے جو میں چپ ہوں تو تم کہتے ہو بولو
سمجھو تو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
سنتا نہیں وہ ورنہ یہ سرگوشی اغیار
کیا مجھ کو گوارا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
مومنؔ بخدا سحر بیانی کا جبھی تک
ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |