ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام

ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام (1935)
by محمد اقبال
296198ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام1935محمد اقبال

(فرانس میں لِکھّے گئے)


ڈھُونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنّائے خام، وائے تمنّائے خام!

پیرِ حرم نے کہا سُن کے مری رُوئداد
پُختہ ہے تیری فغاں، اب نہ اسے دل میں تھام

تھا اَرِنی گو کلیم، میں اَرِنی گو نہیں
اُس کو تقاضا روا، مجھ پہ تقاضا حرام

گرچہ ہے افشائے راز، اہلِ نظر کی فغاں
ہو نہیں سکتا کبھی شیوۂ رِندانہ عام

حلقۂ صُوفی میں ذکر، بے نم و بے سوز و ساز
میں بھی رہا تشنہ کام، تُو بھی رہا تشنہ کام

عشق تری انتہا، عشق مری انتہا
تُو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام

آہ کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز
ورنہ ہے مالِ فقیر سلطنتِ روم و شام


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.