کئی دن ہو گئے یارب نہیں دیکھا ہے یار اپنا
کئی دن ہو گئے یارب نہیں دیکھا ہے یار اپنا
ہوا معلوم یوں شاید کیا کم ان نے پیار اپنا
ہوا بھی عشق کی لگنے نہ دیتا میں اسے ہرگز
اگر اس دل پہ ہوتا ہائے کچھ بھی اختیار اپنا
یہ دونو لازم و ملزوم ہیں گویا کہ آپس میں
نہ یار اپنا کبھو ہوتے سنانے روزگار اپنا
ہوا ہوں خاک اس کے غم میں تو بھی سینہ صافی سے
نہیں کھوتا ہے وہ آئینہ رو دل سے غبار اپنا
یہ شعلہ سا تمہارا رنگ کچھ زور ہی جھمکتا ہے
جلا کیوں کر نہ دوں میں خرمن صبر و قرار اپنا
سر فتراک تھا اس کو نہ تھا لیکن نصیبوں میں
تڑپتا چھوڑ کر جاتا رہا ظالم شکار اپنا
تجھے لازم ہے ہونا مہرباں تاباںؔ پہ اے ظالم
کہ ہے بیتاب اپنا عاشق اپنا بے قرار اپنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |