کاش مقبول ہو دعائے عدو
کاش مقبول ہو دعائے عدو
کیا کروں وہ بھی مستجاب نہیں
اب تو اس چشم تر کا چرچا ہے
ذکر دریا نہیں سحاب نہیں
جمع طوفان و چشم تر مصرف
اب مصارف کا کچھ حساب نہیں
دھو دیا سب کو دیدۂ تر نے
وہ نہیں درس وہ کتاب نہیں
عشق بازی کا منہ چڑانا ہے
اور وہ موسم نہیں شباب نہیں
تیری آنکھوں کے دور میں کیا کیا
سحر رسوا نہیں خراب نہیں
مختصر حال چشم و دل یہ ہے
اس کو آرام اس کو خواب نہیں
جو سراپائے یار آزردہؔ
تیرے دیواں کا انتخاب نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |