کاغذ کی ناؤ
دیکھو اماں کیسی اچھی ہے مری کاغذ کی ناؤ
لے چلا ہے ساتھ اس کو مینہ کے پانی کا بہاؤ
بند کر دیتا نہ میں سب مہریوں کے منہ اگر
کس طرح پانی سے بھر جاتا بھلا پھر سارا گھر
میری کشتی تم ذرا دیکھو تو اک چکر میں ہے
گو کہ دریا میں ہے لیکن پھر بھی گھر کے گھر میں ہے
مچھلیاں اس واسطے آنگن کے دریا میں نہیں
ڈر کے میری ناؤ سے ساری کی ساری چھپ گئیں
اچھی اماں اب مجھے دریا میں جانے دو ذرا
اپنی کشتی کو مجھے خود ہی چلانے دو ذرا
جاؤں گا میں جب کشتی سنبھالے دیکھنا
تم کہو گی میرے ننھے ناؤ والے دیکھنا
میں کہوں گا میری اماں کس طرح دیکھوں ادھر
کیا کروں گا ناؤ رستے سے بھٹک جائے اگر
دھیان بٹ جائے تو کشتی ڈوب جائے گی ضرور
بیٹھ کر کس چیز میں پھر جاؤں گی میں دور دور
اچھی اماں اب مجھے دریا میں جانے دو ذرا
اپنی کشتی کو مجھے خود ہی چلانے دو ذرا
دیکھ لینا تم کہ اس دریا میں ڈوبوں گا نہ میں
اچھی اماں دیر تک پانی میں کھیلوں گا نہ میں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |