کالی گھٹا کب آئے گی فصل بہار میں
کالی گھٹا کب آئے گی فصل بہار میں
آنکھیں سفید ہو گئیں اس انتظار میں
کیوں کر قرار آئے دل بے قرار میں
تم پورے کب اترتے ہو قول و قرار میں
تاریک دشت ہو گیا آنکھوں میں قیس کی
پنہاں ہوا جو ناقۂ لیلیٰ غبار میں
آئے کبھی نہ پھر تجھے سیر چمن میں لطف
بیٹھے اگر تو آ کے دل داغدار میں
لازم نہیں کہ مرد مصیبت میں ہو ملول
خنداں ہمیشہ رہتا ہے گل خارزار میں
ہے یہ کسی کی چشم سیہ مست کا اثر
توبہ بھی لڑکھڑانے لگی ہے بہار میں
ہوتے وہاں جو داغؔ تو دلی بھی دیکھتے
اب کیا کریں گے جا کے اس اجڑے دیار میں
کیا خاک اپنے دل کو تمنائے شعر ہو
جز خار کچھ نہیں چمن روزگار میں
جز داغؔ آج بلبل ہندوستاں ہے کون
کہتے ہیں ہم پکار کے یہ سو ہزار میں
اے مشرقیؔ نصیب نہ سوئے دعا ہے یہ
کیا غم جو جاگتا ہوں شب انتظار میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |