کاٹوں گا شب تڑپ کر رو کر سحر کروں گا
کاٹوں گا شب تڑپ کر رو کر سحر کروں گا
فرقت میں تیری جاناں یوں ہی بسر کروں گا
کہتا ہے عشق دلبر فرقت میں ہو نہ مضطر
دل میں گزر کروں گا آنکھوں میں گھر کروں گا
آتا نہیں وہ دلبر کہتا ہے روز مجھ سے
آنے کی اپنے تجھ کو پہلے خبر کروں گا
تم جا رہے ہو جاؤ اے بت مرا خدا ہے
سینے کو رنج فرقت پتھر جگر کروں گا
قطروں میں چشم تر کے تصویر دل ربا ہے
حسرت سے کیوں نہ اس کی جانب نظر کروں گا
عاشق کا قافلہ اب جاتا ہے ان کے در پر
بانگ جرس بنوں گا نالوں کو سر کروں گا
تربت کو دیکھ کر میں کہتا ہوں اے جمیلہؔ
اے گور میں بھی تیرا آباد گھر کروں گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |