319310کاہلیسید احمد خان

یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کے معنی سمجھنے میں لوگ غلطی کرتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں سے محنت نہ کرنا، کام کاج، محنت مزدوری میں چستی نہ کرنا، اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے میں سستی کرنا کاہلی ہے۔ مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ دلی قوی کو بے کار چھوڑ دینا سب سے بڑی کاہلی ہے۔

ہاتھ پاؤں کی محنت اوقات بسر کرنے اور روٹی کما کر کھانے کے لیے نہایت ضروری ہے اور روٹی پیدا کرنا اور پیٹ بھرنا ایک ایسی چیز ہے کہ بمجبوری اس کے لیے محنت کی جاتی ہے اور ہاتھ پاؤں کی کاہلی چھوڑی جاتی ہے اور اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ اور وہ جو کہ اپنی روزانہ محنت سے اپنی بسر اوقات کا سامان مہیا کرتے ہیں بہت کم کاہل ہوتے ہیں۔ محنت کرنا اور سخت سخت کاموں میں ہر روز لگے رہنا گویا ان کی طبیعت ثانی ہو جاتی ہے۔ مگر جن لوگوں کو ان باتوں کی حاجت نہیں ہے وہ اپنے دلی قوی کو بے کار چھوڑ کر بڑے کاہل اور بالکل حیوان صفت ہو جاتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ لوگ پڑھتے ہیں اور پڑھنے میں ترقی بھی کرتے ہیں اور ہزار پڑھے لکھوں میں سے شاید ایک کو ایسا موقع ملتا ہوگا کہ کہ اپنی تعلیم کو اور اپنی عقل کو ضرورتاً کام میں لاوے لیکن اگر انسان ان عارضی ضرورتوں کا منتظر رہے اور اپنے دلی قوی کو بے کار ڈال دے تو وہ نہایت سخت کاہل اور وحشی ہو جاتا ہے۔ انسان بھی مثل اور حیوانوں کے ایک حیوان ہے اور جب کہ اس کے دلی قوی کی تحریک سست ہو جاتی ہے اور کام میں نہیں لائی جاتی تو وہ اپنی حیوانی خصلت میں پڑ جاتا ہے۔ پس ہر ایک انسان پر لازم ہے کہ اپنے اندرونی قوی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں رہے اور ان کو بےکار نہ چھوڑے۔

ایک ایسے شخص کی حالت کو خیال کرو جس کی آمدنی اس کے اخراجات کو مناسب ہو اور اس کے حاصل کرنے میں اس کو چنداں محنت و مشقت کرنی نہ پڑے جیسے کہ ہمارے ہندوستان میں ملکیوں اور لاخراج دازوں کا حال تھا اور وہ اپنے دلی قوی کو بھی بے کار ڈال دے تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہی ہوگا کہ اس کے عام شوق وحشیانہ باتوں کی طرف مائل ہوتے جاویں گے۔ شراب پینا اور مردار کھانا اس کو پسند ہوگا، قمار بازی اور تماش بینی کا عادی ہوگا اور یہی سب باتیں اس کے وحشی بھائیوں میں بھی ہوتی ہیں، البتہ اتنا فرق ہوتا ہے کہ وہ پھوہڑ، بد سلیقہ وحشی ہوتے ہیں اور یہ ایک وضعدار وحشی ہوتا ہے۔ شراب پی کر پلنگ پر پڑے رہنا اور ناریل میں تمباکو کے دھوویں اڑانا اس کو پسند ہوتا ہے۔ پس پیچوان اور ناریل اور بچھونے اور ریت کے فرق سے کچھ مشابہت میں جو ان دونوں میں ہے کمی نہیں ہوتی۔

ہم قبول کرتے ہیں کہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کے لیے ایسے کام بہت کم ہیں جن کو ان کو قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع ملے اور بر خلاف اس کے اور ولایتوں میں اور خصوصا انگلستان میں وہاں کے لوگوں کے لیے ایسے موقعے بہت ہیں۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ انگریزوں کو بھی کوشش اور محنت کی ضرورت اور اس کا شوق نہ رہے جیسا کہ اب ہے تو وہ بھی بہت جلد وحشت پنے کی حالت کو پہنچ جاویں گے، مگر ہم اپنے ہم وطنوں سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ہم کو اپنے قوائے دلی اور قوت عقلی کو کام میں لانے کا موقع نہیں رہا ہے اس کا بھی سبب یہی ہے کہ ہم نے کاہلی اختیار کی ہے یعنی اپنے دلی قوی کو بے کار چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم کو قوائے قلبی اور قوت عقلی کے کام میں لانے کا موقع نہیں ہے تو ہم کو اسی کی فکر اور کوشش چاہیے کہ وہ موقع کیونکر حاصل ہو اگر اس کو حاصل کرنے میں ہمارا کچھ قصور ہے تو اس کی فکر اور کوشش چاہئے کہ وہ قصور کیونکر رفع ہو۔

غرض کہ کسی شخص کے دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چاہیے۔ کسی نہ کسی بات کی فکر و کوشش میں رہنا لازم ہے تاکہ ہم کو اپنی تمام ضروریات کے انجام کرنے کی فکر اور مستعدی رہے اور جب تک ہماری قوم سے کاہلی یعنی دل کو بے کار پڑے رہنا نہ چھوٹے گا، اس وقت تک ہم کو اپنی قوم کی بہتری کی توقع کچھ نہیں ہے۔ نہایت حکیمانہ قول ہے کہ،

بے کار مباش کچھ کیا کر
گر کر نہ سکے تو کچھ کہا کر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.