کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دہاں مجھ کو
کبھو دکھا کے کمر اور کبھو دہاں مجھ کو
بہت بتنگ کیا تو نے اے میاں مجھ کو
وہ دن گئے کہ اٹھاتے تھے یار نکہت گل
ہے بے دماغیٔ دل ان دلوں گراں مجھ کو
میں رہگزر میں پڑا ہوں برنگ نقش قدم
میں چھوڑا کس کے بھروسے پہ کارواں مجھ کو
میں ہوں تو مرغ چمن پر غلط نگاہی سے
ہیں کتنے روز کہ بھولا ہے آشیاں مجھ کو
تو اتنے واسطے اے باغباں نہ کاوش کر
بہت ہے سایۂ دیوار گلستاں مجھ کو
روا رکھوں نہ کہ ہووے ملک بھی پاس مرے
کیا ہے بسکہ محبت نے بد گماں مجھ کو
مری نظر میں ہے قائمؔ یہ کائنات تمام
نظر میں گو کوئی لاتا نہیں ہے یاں مجھ کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |