کبھی قلق میں کبھی فکر و انتظار میں ہیں

کبھی قلق میں کبھی فکر و انتظار میں ہیں  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

کبھی قلق میں کبھی فکر و انتظار میں ہیں
ہزار طرح کے صدمے فراق یار میں ہیں

وہ سن کے قصۂ غم ہنستے ہنستے لوٹ گیا
یہ شوخیاں بھی نئی شوخ گلعذار میں ہیں

میں کیا بیان کروں آگے تیرے اے زاہدؔ
عجیب کیفیتیں نشہ کے خمار میں ہیں

جہاں میں ہم نے اٹھائے تھے رنج کیا کیا کچھ
فنا کے بعد بڑے چین سے مزار میں ہیں

وہ ہم کو قتل کریں چاہیں ٹکڑے ٹکڑے کریں
ہم ان کے بس میں ہیں ہم ان کے اختیار میں ہیں

خدا کرے کہ نہ آئیں وہ فاتحہ پڑھنے
کہ تین دن ابھی بھاری مجھے مزار میں ہیں

نصیحت آپ تو کرتے ہیں حضرت ناصح
میں جانتا ہی نہیں آپ کس شمار میں ہیں

پیامبر یہ بھی کہنا ہماری جانب سے
تمہاری یاد میں ہیں اور انتظار میں ہیں

خدا کے فضل سے کٹتی ہے لطف سے اے رنجؔ
بڑے مزے میں ہیں ہم بھی بڑی بہار میں ہیں

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse