کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست

کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
by داغ دہلوی

کب بات ہو بغیر خوشامد وہاں درست
وہ نادرست بھی جو کہیں کہیے ہاں درست

تھوڑے سے دن بہار کے ہیں کس امید پر
کرتے ہیں اپنے مرغ چمن آشیاں درست

کچھ میں بھی اپنا حال طبیعت بیاں کروں
گر ہو مزاج آپ کا اے مہرباں درست

اس کو درستی دل عاشق سے کیا غرض
جس بد زبان کی نہیں اب تک زباں درست

آنکھوں میں رہ کہ دل میں ٹھہر تیرے واسطے
آراستہ ہر ایک مکاں ہر مکاں درست

ہر روز تازیانہ زلف دراز سے
تو نے بھی دل کو خوب کیا میری جاں درست

آتا ہے سامنے جو وہ غارت گر شکیب
اوسان داغؔ رہتے ہیں اپنے کہاں درست

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse