کب سنے زنجیر مجھ مجروح دیوانے کی عرض

کب سنے زنجیر مجھ مجروح دیوانے کی عرض
by انعام اللہ خاں یقین

کب سنے زنجیر مجھ مجروح دیوانے کی عرض
نیں پہنچتی کان تک اس زلف کے شانے کی عرض

گرمی اہل بزم سے مت کر کہ میں ہوتا ہوں داغ
شمع کی خدمت میں ہے اتنی ہی پروانے کی عرض

شیشہ مجھ دل سا نہ پاوے اور تری آنکھوں سا جام
لے اگر ساقی ہزاروں سال میخانے کی عرض

دل کو ویراں مت کرو یہ ہے جنوں کا پاۓ تخت
اے پری زادوں کبھو سنئے بھی دیوانے کی عرض

فصل جاتی ہے یقیںؔ اور باغباں سے ایک یار
کوئی کرتا نیں ہمارے باغ میں جانے کی عرض

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse