کجا ہستی بتا دے تو کہاں ہے
کجا ہستی بتا دے تو کہاں ہے
جسے کہتے ہیں بسمل نیم جاں ہے
ہمارا گھر ہے یعنی خانۂ ماست
محل ہی کاخ ہے کوشک مکاں ہے
چچا عم ہے پسر بیٹا پدر باپ
تو کنبہ خانمان و دودماں ہے
سفینہ ناؤ کشتی بان ملاح
بہے پانی تو وہ آب رواں ہے
بتاؤ آگ کیا ہے نار و آتش
دھواں کیا چیز ہے دو دود و خاں ہے
جسے کہتے ہو تم گردون گرداں
فلک چرخ و سپہر و آسماں ہے
وہی جنت کہ جس کی آرزو ہے
نعیم و خلد و فردوس و جناں ہے
سنا کیجئے حکایت ہے کہانی
کہا کیجئے فسانہ داستاں ہے
مرا سر راس ہے ماتھا جبیں ہے
مرے منہ میں زباں ہے جو لساں ہے
کہو تم جو ترازو ہے سو میزاں
سنو تم آزمائش امتحاں ہے
حجر پتھر ہے اور قرطاس کاغذ
سبک ہلکا ہے اور بھاری گراں ہے
عصا لاٹھی علم نیزہ سناں بھال
جسے ہم قوس کہتے ہیں کماں ہے
نہان و مستتر پوشیدہ مخفی
جو بارز ہے تو ظاہر ہے عیاں ہے
اگر جانو ہو تم ریوڑ کو گلہ
تو چرواہا بھی راعی اور شباں ہے
کہا کرتے ہیں شاعر کو سخنداں
جو بھیدی ہے تو محرم راز داں ہے
ہمانجا آمدم جائے کہ ہستی
وہیں آیا ہوں میں بھی تو جہاں ہے
یہی کون و مکاں دنیا ہے عالم
یہ ہی گیتی ہی گیہاں ہے جہاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |