کدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں
کدھر ابرو کی اس کے دھاک نہیں
کون اس تیغ کا ہلاک نہیں
مثل آئینہ آبرو ہے تو دیکھ
ورنہ گھر میں تو اپنے خاک نہیں
دے ہے ہم چشمی اس سے پھر خورشید
کیا بھلا اس کے منہ پہ ناک نہیں
چاہیں توبہ کی چھاؤں ہم زاہد
کیا کہیں دار بست تاک نہیں
خبر غیب خطرۂ دل ہے
ورنہ تا عرش اپنی ڈاک نہیں
جس مصلے پہ چھڑکئے نہ شراب
اپنے آئین میں وہ پاک نہیں
یوں تو تائب ہیں مے سے ہم بھی پہ شیخ
گر پلاوے کوئی تو باک نہیں
یاں وہ ملبوس خاص نئیں جوں گل
جو قبا دس جگہ سے چاک نہیں
قائمؔ اس کوچہ میں پھرے ہے مگر
ابھی کچھ بات ٹھیک ٹھاک نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |