کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا
کدھر ہے آج الٰہی وہ شوخ چھل بلیا
کہ جس کے غم سے مرا دل ہوا ہے باولیا
تمام گوروں کے حیرت سے رنگ اڑ جاتے
جو گھر سے آج نکلتا وہ میرا سانولیا
تجھے خبر نہیں بلبل کے باغ سے گلچیں
بڑی سی پھولوں کی اک بھر کے لے گیا ڈلیا
نظیرؔ یار کی ہم نے جو کل ضیافت کی
پکایا قرض منگا کر پلاؤ اور قلیا
سو یار آپ نہ آیا رقیب کو بھیجا
ہزار حیف ہم ایسے نصیب کے بلیا
ادھر تو قرض ہوا اور ادھر نہ آیا یار
پکائی کھیر تھی قسمت سے ہو گیا دلیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |