کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے

کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے
by آرزو لکھنوی

کرم ان کا خود ہے بڑھ کر مری حد التجا سے
مجھے سوء ظن نہیں ہے کہ دعا کروں خدا سے

دل مطمئن کی وسعت کوئی کم ہے ماسوا سے
مجھے کاہے کی کمی ہے جو طلب کروں خدا سے

ہوئی ختم غم کی آندھی وہی دل کی لو ہے اب بھی
یہی شعلہ تھا وہ شعلہ کہ لڑا کیا ہوا سے

کہے کون اسے پتنگا جو ہے شعلے پر دھواں سا
تجھے لے اڑے ہیں کتنا ترے پر ذرا ذرا سے

جو ہے سب کا دینے والا میں اسی کو چاہتا ہوں
مری بھیک وہ نہیں ہے کہ ملے کسی گدا سے

یہ ہے قصر زندگانی کہ حباب بحر فانی
ابھی بن گیا ہوا سے ابھی مٹ گیا ہوا سے

یہ خیال خود ہے ایسا جو خوشی بنا دے غم کو
کہ ہے ابتدا خوشی کی مرے غم کی انتہا سے

مرا دل رضا پہ راضی کرم اس کا جوش پر ہے
جو اب آ گئی زباں تک تو اثر گیا دعا سے

مری لاکھ منتوں پر تری اک حیا ہے بھاری
کوئی پردہ ہے وہ پردہ کہ ہلے ڈلے ہوا سے

ترے پاکباز الفت نہیں ہارنے کے ہمت
جو مریں گے ڈوب کر بھی تو مریں گے رہ کے پیاسے

کسی دل کی آس یوں بھی کبھی آرزوؔ نہ ٹوٹے
یہ کہے بنی ہے دم پر وہ کہے مری بلا سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse