کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
کرنا جو محبت کا اقرار سمجھ لینا
اک بار نہیں اس کو سو بار سمجھ لینا
ہم ہوں کہ عدو اس میں جو ظلم کا شاکی ہو
کرتا ہی نہیں تم کو وہ پیار سمجھ لینا
مر جائے مگر جانا اس کی نہ عیادت کو
تم جس کو محبت کا بیمار سمجھ لینا
بن بن کے بگڑتا ہے وہ کام محبت میں
آسان نہیں جس کو دشوار سمجھ لینا
غفلت کدۂ ہستی جب کہتے ہیں عالم کو
سودا ہے پھر اپنے کو ہشیار سمجھ لینا
محفل میں رقیبوں کی جانا ہے اگر تم کو
صورت سے مجھے اپنی بیزار سمجھ لینا
دل پر تو لگاتے ہو تم تیر نظر لیکن
آہوں کو ہماری بھی تلوار سمجھ لینا
چھیڑا جو مرے آگے پھر تذکرۂ دشمن
رکھی ہوئی ہے مجھ سے تکرار سمجھ لینا
پوشیدہ حفیظؔ اس میں اسرار محبت ہیں
آسان نہیں میرے اشعار سمجھ لینا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |