کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج

کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج
by نظیر اکبر آبادی
316023کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاجنظیر اکبر آبادی

کرنے لگا دل طلب جب وہ بت خوش مزاج
ہم نے کہا جان کل اس نے کہا ہنس کے آج

زلف نے اس کی دیا کاکل سنبل کو رشک
چشم سیہ نے لیا چشم سے آہو کے باج

اس کی وہ بیمار چشم دیکھ رہا تو جو دل
رہ تو سہی میں تیرا کرتا ہوں کیسا علاج

کام پڑا آن کر چاہ سے جس دن ہمیں
چھٹ گئے اس روز سے اور جو تھے کام کاج

دل تو نہ دیتے ہم آہ لے گئی لیکن نظیرؔ
اس کی جبیں کی حیا اور وہ آنکھوں کی لاج


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.