کروں کس سے فریاد کیا ہو گیا
کروں کس سے فریاد کیا ہو گیا
مرا یار مجھ سے جدا ہو گیا
کریں کیا کہ دل ہاتھ سے جا چکا
جو ہونا مقدر میں تھا ہو گیا
مرا جو غم ہجر میں وہ جیا
کہ زندان غم سے رہا ہو گیا
مرے سامنے غیر سے اختلاط
مروت کا بس خاتمہ ہو گیا
کہوں عشق پروانہ کیا شمع سے
وہ روشن رہی خود فنا ہو گیا
حقیرؔ آگے پیتا تھا مے خم کے خم
میں سنتا ہوں اب پارسا ہو گیا
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |