کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو

کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو
by امیر اللہ تسلیم

کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو
یہاں گمان خطر ہے قدم بڑھائے چلو

یہاں فریب نشیب و فراز اکثر ہے
خدا کے واسطے اتنا نہ منہ اٹھائے چلو

شکستہ پا ہوں کہیں ساتھ سے نہ رہ جاؤں
مجھے بھی ہاتھ ذرا دوستو لگائے چلو

ابھی تو حسن عمل کا زمانہ باقی ہے
وہاں کی بگڑی ہوئی کچھ یہیں بنائے چلو

ادھر ادھر کہیں بھر کر ترارہ جا نہ پڑے
سمند عمر رواں کو ذرا دبائے چلو

عدم میں ترسو گے درد جگر کو اے تسلیمؔ
جو ہو سکے کوئی سینہ پہ تیر کھائے چلو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse