کر امتحاں ٹک ہو کے تو خونخوار یک طرف
کر امتحاں ٹک ہو کے تو خونخوار یک طرف
میں آج یک طرف ہوں ترے یار یک طرف
انصاف ہے کہ غیر سے صحبت رکھے تو گرم
بیٹھا رہوں میں مثل گنہ گار یک طرف
سیکھے ہو کس سے سچ کہو پیارے یہ چال ڈھال
تم یک طرف چلو ہو تو تلوار یک طرف
ناز و کرشمہ عشوہ و انداز اور ادا
میں یک طرف ہوں اتنے ستم گار یک طرف
کس بات پر تری میں کروں اعتبار ہائے
اقرار یک طرف ہے تو انکار یک طرف
دیکھیں پرووے کون بھلا سلک لخت دل
میں اک طرف ہوں ابر گہربار یک طرف
قائمؔ ہر ایک کوچہ میں ہے طرفہ تعزیہ
یوسف ترے کی گرمئ بازار یک طرف
دلال ایک سمت کو منہ سے ملیں ہیں خاک
سر پیٹتے پھریں ہیں خریدار یک طرف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |