کر کے بیمار دی دوا تو نے
کر کے بیمار دی دوا تو نے
جان سے پہلے دل لیا تو نے
رہرو تشنہ لب نہ گھبرانا
اب لیا چشمۂ بقا تو نے
شیخ جب دل ہی دیر میں نہ لگا
آ کے مسجد سے کیا لیا تو نے
دور ہو اے دل مآل اندیش
کھو دیا عمر کا مزا تو نے
ایک بیگانہ وار کر کے نگاہ
کیا کیا چشم آشنا تو نے
دل و دیں کھو کے آئے تھے سوئے دیر
یاں بھی سب کچھ دیا خدا تو نے
خوش ہے امید خلد پر حالیؔ
کوئی پوچھے کہ کیا کیا تو نے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |