کر کے دل کو شکار آنکھوں میں
کر کے دل کو شکار آنکھوں میں
گھر کرے ہے تو یار آنکھوں میں
چشم بد دور ہو نظر نہ کہیں
ہے نپٹ ہی بہار آنکھوں میں
اور سب چہرہ بازیوں کے سوا
عشوہ ہے صد ہزار آنکھوں میں
کیا کہوں کچھ کہی نہیں جاتی
باتیں ہیں بے شمار آنکھوں میں
جس گھڑی گھورتے ہو غصہ سے
نکلے پڑتا ہے پیار آنکھوں میں
تیر مژگاں دلوں کے پار ہوئے
ہے یہ گزر و گزار آنکھوں میں
یار تیرے لئے یہ گوہر اشک
تھے برائے نثار آنکھوں میں
اشک خونیں کے یہ نہیں قطرے
یہ رہے ہیں شرار آنکھوں میں
دیکھنا ٹک اثرؔ سے نظریں ملا
کیا ہوئے تھے قرار آنکھوں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |