323887کسانمیکش حیدرآبادی

برہنہ جسم پسینہ میں غرق ننگے پاؤں
مگر سکون ہے یوں دل میں جیسے ٹھنڈی چھاؤں
گیہوں کے کھیت سے کٹیا میں اپنی آیا ہے
تصورات کی دنیا میں ساتھ لایا ہے
ہے اک پھٹی ہوئی کمبل غریب کاندھوں پر
سیاہ ابر پہ رہ رہ کے اٹھ رہی ہے نظر
پڑا ہے کھیت کا سامان ایک کونے میں
ہیں اس کی زیست کے اسرار پا کے کھونے میں
نفس ہے پھولی ہوئی جیسے پھونک بھٹے کی
رکھی ہے کان پہ بیڑی بنا کے پتے کی
لہو کی لہر سی ہے موج زن پسینے میں
بقائے دہر کا ہے راز اس کے جینے میں
ہر ایک سانس ہے اس کی بہار آزادی
کہ اس غلام کا دل ہے دیار آزادی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.