کسان
برہنہ جسم پسینہ میں غرق ننگے پاؤں
مگر سکون ہے یوں دل میں جیسے ٹھنڈی چھاؤں
گیہوں کے کھیت سے کٹیا میں اپنی آیا ہے
تصورات کی دنیا میں ساتھ لایا ہے
ہے اک پھٹی ہوئی کمبل غریب کاندھوں پر
سیاہ ابر پہ رہ رہ کے اٹھ رہی ہے نظر
پڑا ہے کھیت کا سامان ایک کونے میں
ہیں اس کی زیست کے اسرار پا کے کھونے میں
نفس ہے پھولی ہوئی جیسے پھونک بھٹے کی
رکھی ہے کان پہ بیڑی بنا کے پتے کی
لہو کی لہر سی ہے موج زن پسینے میں
بقائے دہر کا ہے راز اس کے جینے میں
ہر ایک سانس ہے اس کی بہار آزادی
کہ اس غلام کا دل ہے دیار آزادی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |