کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی
کسی سے وصل میں سنتے ہی جان سوکھ گئی
چلو ہٹو بھی ہماری زبان سوکھ گئی
اک آہ گرم نے جھلسائے خوشۂ انجم
تمام کھیتی تری آسمان سوکھ گئی
قیامت اور وہ ہنگامہ پھر قیامت کا
لحد سے اٹھتے ہی دھڑکوں سے جان سوکھ گئی
رہا نہ بعد مرے ہائے کوئی آبلہ پا
پکارتے ہیں یہ کانٹے زبان سوکھ گئی
شب فراق کا آدھا نہیں رہا تن و توش
یہ میرے گھر جو ہوئی میہمان سوکھ گئی
ملا بھی ہم کو تو بے وقت اس طرح کھانا
کہ چاول اینٹھ گئے اور نان سوکھ گئی
بہت ہی پھولی ہوئی تھی یہ اپنی رنگت پر
جو دیکھا رنگ مرا زعفران سوکھ گئی
ہوائے گرم خزاں میں وہ رنگ و روپ کہاں
تھی عندلیب یوں ہی دھان پان سوکھ گئی
ریاضؔ یاد ہے ان کا وصال میں کہنا
خدا کے واسطے چھوڑو زبان سوکھ گئی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |