کسی صورت تو دل کو شاد کرنا
کسی صورت تو دل کو شاد کرنا
ہمیں دشمن سمجھ کر یاد کرنا
دعائیں دیں گے چھٹ کر قیدیٔ زلف
جہاں تک ہو سکے آزاد کرنا
کہیں وہ آفریں ایسا پڑے ہاتھ
نہ مجھ پر رحم او جلاد کرنا
مسیحائی دکھانا بعد مردن
جو دل چاہے تو کچھ ارشاد کرنا
اڑا دو خاک میری ٹھوکروں سے
اگر منظور ہے برباد کرنا
ادب سیکھے نہیں ہوں نو گرفتار
بتا کر قاعدے بیداد کرنا
مزا تھا بے بسی کی گالیوں میں
اسی بھولے سبق کو یاد کرنا
بہت مشکل ہے ان سنگیں دلوں سے
خیال خاطر ناشاد کرنا
جنازہ اٹھ چکے میرا تو تم بھی
ادا رسم مبارک باد کرنا
نسیمؔ خستہ دل نے جان دے دی
غضب لایا ترا بیداد کرنا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |