کسی محاذ پہ وہ بولنے نہیں دیتا

کسی محاذ پہ وہ بولنے نہیں دیتا
by حیرت الہ آبادی

کسی محاذ پہ وہ بولنے نہیں دیتا
ضرورتاً بھی زباں کھولنے نہیں دیتا

قفس میں اب بھی محافظ کئی پرندوں پر
نگاہ رکھتا ہے پر تولنے نہیں دیتا

وہ جس کا حق ہے اسے بھی تو نا شناس وفا
محل سراؤں کے در کھولنے نہیں دیتا

مرا بھی پیار ہے صادق اسی لئے تو کبھی
کسی کو پیار میں سم گھولنے نہیں دیتا

وہ چاہتا ہے کہ صحرا نورد بن جاؤں
مکان ذہن کے در کھولنے نہیں دیتا

ہزار ہا گہر اشک گل بہ وقت سحر
چمن میں موسم گل رولنے نہیں دیتا

وہ ترک عشق کی دیتا ہے دھمکیاں مجھ کو
جو بات سچ ہے اسے بولنے نہیں دیتا

ہوا نے پیرہن بادباں اڑا بھی دیا
یہ نا خدا ہے کہ لب کھولنے نہیں دیتا

تخیلات پہ حیرتؔ کے چھا گیا ایسا
تصورات کے در کھولنے نہیں دیتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse