کسی موسم کی وہ باتیں جو تیری یاد کرتا ہوں
کسی موسم کی وہ باتیں جو تیری یاد کرتا ہوں
انہیں باتوں کو پھر پھر کہہ دل اپنا شاد کرتا ہوں
نہیں معلوم مجھ پر بھی یہ احوال اپنی زاری کا
کہ میں مثل جرس کس کے لئے فریاد کرتا ہوں
یہ دل کچھ آپھی ہو جاتا ہے بند اور آپھی کھلتا ہے
نہ میں قید اس کو کرتا ہوں نہ میں آزاد کرتا ہوں
جگر جل کر ہوا ہے خاک اور تس پر میں آہوں سے
جو کچھ باقی رہے ہے گرد سو برباد کرتا ہوں
غبار دل کو آب تیغ سے اس کے ملا کر میں
نئے سر سے عمارت دل کی پھر بنیاد کرتا ہوں
مرے آباد دل کو کر خراب اس نے کہا ہنس ہنس
کہ میں اس ملک کا نام اب خراب آباد کرتا ہوں
کبھی تیرے بھی دل میں یہ گزرتی ہے کہ میں ناحق
بھلا دل پر حسنؔ کے اتنی کیوں بیداد کرتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |