کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
کسی کو دیکھ کر بے خود دل کام ہو جانا
اسی کو لوگ کہتے ہیں خیال خام ہو جانا
محبت سے جو پیش آئے کوئی ہو دوست یا دشمن
ہمیں تو ہر کسی کا بندۂ بے دام ہو جانا
خدا جانے کہ کیا ہوتا مآل اپنی محبت کا
بہت اچھا ہوا آغاز میں انجام ہو جانا
مٹانا ہو اگر دھبا ریا کاری کا اے زاہد
کسی کی بزم میں اک دن شریک جام ہو جانا
جہاں دیکھو وہاں کچھ ذکر ہے اپنی محبت کا
برا ہے آدمی کے واسطے بدنام ہو جانا
کرے گا رخنہ پیدا کوئی دن درباں کا ہنگامہ
قیامت ہے ترے در پر ہجوم عام ہو جانا
حفیظؔ ایسے مسلماں کا بھی کوئی دین و مذہب ہے
بتوں کی دوستی میں تارک اسلام ہو جانا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |