کسی گل میں نہیں پانے کی تو بوئے وفا ہرگز
کسی گل میں نہیں پانے کی تو بوئے وفا ہرگز
عبث اپنا دل اے بلبل چمن میں مت لگا ہرگز
طبیبوں سے علاج عشق ہوتا ہے نپٹ مشکل
ہمارے درد کی ان سے نہیں ہونے کی دوا ہرگز
تجا گھر ایک اور سارے بیاباں کا ہوا وارث
کوئی مجنوں سا عیارا نہ ہوگا دوسرا ہرگز
بہار آئی ہے کیوں کر عندلیبیں باغ میں جاویں
قفس کے در کے تئیں کرتا نہیں صیاد وا ہرگز
نہ تھے عاشق کسی بیداد پر ہم جب تلک تاباںؔ
ہمارے دل کے تئیں کچھ درد و غم تب تک نہ تھا ہرگز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |