کس سے پوچھوں ہائے میں اس دل کے سمجھانے کی طرح
کس سے پوچھوں ہائے میں اس دل کے سمجھانے کی طرح
ساتھ طفلاں کے لگا پھرتا ہے دیوانے کی طرح
یار کے پاؤں پہ سر رکھ جی کو اپنے دیجئے
اس سے بہتر اور نہیں ہوتی ہے مر جانے کی طرح
کب پلاوے گا تو اے ساقی مجھے جام شراب
جاں بلب ہوں آرزو میں مے کی پیمانے کی طرح
مست آتا ہے پئے مے آج وہ قاتل مرا
کچھ نظر آتی ہے مجھ کو اپنے جی جانے کی طرح
شمع رو کے گرد پھرتی ہیں سدا قربان ہو
چشم میری پر لگا مژگاں کے پروانے کی طرح
باغ میں گل نے کیا اپنے تئیں لوہولہان
دیکھ اس غنچہ دہن کے پان کے کھانے کی طرح
فصل گل آئی ہے تاباںؔ گھر میں کیا بیٹھا ہے یوں
کر گریباں چاک جا صحرا میں دیوانے کی طرح
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |