کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا

کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
by آرزو لکھنوی

کس مست ادا سے آنکھ لڑی متوالا بنا لہرا کے گرا
آگے تو ہیں راہیں اور کٹھن دل پہلے ہی ٹھوکر کھا کے گرا

آگے جو بڑھا تھرائے قدم وہ ہنس جو دیے شرما کے گرا
بے ہوش نہیں ہشیار تھا میں اٹھنے کا سہارا پا کے گرا

دل شوق کے جوش میں دوڑ چلا اور جوش تو ہوتا ہے اندھا
در بند پڑا تھا قسمت کا ٹکر جو لگی تیورا کے گرا

جتنی بھی دل کی ضرورت تھی بس اتنی ہی ہمت و طاقت تھی
رستے کی کھکھیڑیں جھیل گیا پاس آتے ہی میں چکرا کے گرا

کیا عشق کی منزل بھی ہے کڑی بندھ بندھ کر ہمت ٹوٹ گئی
جو ایک قدم چل کر سنبھلا وہ دو قدم آگے جا کے گرا

سلگی ہوئی ہے غم کی بھٹی دل کیوں نہ پگھل کے بنے پانی
جو قطرہ آنسو ہو کے بہا لہرا کے چلا تیورا کے گرا

وہ نالہ فلک سے ٹکرایا وہ آرزوؔ اک تارا ٹوٹا
دشمن کی طرف جو لپکا تھا شعلہ وہ مجھی پر آ کے گرا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse