کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے

کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے
by میر مظفر حسین ضمیر
316509کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہےمیر مظفر حسین ضمیر

کس نور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے
جس نور سے پر نور یہ نور نظری ہے
آمد ہی میں حیران قیاس بشری ہے
یہ کون سی تصویر تجلی سے بھری ہے
گو حسن کا رتبہ نہیں مذکور ہوا ہے
منبر مرا ہم مرتبۂ طور ہوا ہے

صد شکر کہ مجلس مری مشتاق سخن ہے
یہ فیض عنایات حسین اور حسن ہے
پھر جوش جوانی پہ مری طبع کہن ہے
یہ قوت امداد شہ تشنہ دہن ہے
نقاش میں یہ صنعت تحریر نہیں ہے
تصویر دکھاتا ہوں یہ تقریر نہیں ہے

نقاش تو کرتا ہے قلم لے کے یہ تدبیر
اک شکل نئی صفحۂ قرطاس پہ تحریر
انصاف کرو کلک زباں سے دم تحریر
میں صفحۂ باطن میں رقم کرتا ہوں تصویر
سو رنگ سے تصویر مصور نے بھری ہے
رنیگنئ مضموں کی کہاں جلوہ گری ہے

تصویر میں اس شخص کی ہوں تم کو دکھاتا
جو ثانی محبوب الٰہی ہے کہاتا
اک نور جو جاتا ہے تو اک نور ہے آتا
وجہ عدم سایۂ احمد ہوں سناتا
تھا بعد محمد کے جو آیا علی اکبر
تھا احمد مختار کا سایہ علی اکبر

یاں تک سخن تازہ کیا طبع نے پیدا
وہ نور نبی اور نبی نورخدا کا
یہ سلسلۂ نور کہاں جا کے ہے پہنچا
اکبر کو جو دیکھا تو بتاؤ کسے دیکھا
واللہ زیارت کا سزا وار ہے اکبر
نعم البدل احمد مختار ہے اکبر

لیکن تمہیں تصویر یہ کرتی ہے اشارت
ہاں مجلسیاں روضۂ جنت کی بشارت
ہو محو طہارت ہے اگر قصد زیارت
ہے لازم و ملزوم زیارت کو طہارت
اس قصد پہ بیٹھے ہو جو صاحب نظرو تم
تجدید وضو اشک کے پانی سے کرو تم

لکھا ہے کہ تھی حضرت شبیر کو عادت
ہوتی تھی نماز سحری سے جو فراغت
پہلے علی اکبر ہی کو بلواتے تھے حضرت
فرماتے تھے کرتا ہوں عبادت میں عبادت
روشن ہو نہ کیوں چشم حسین ابن علی کی
کرتا ہوں زیارت میں جمال نبوی کی

کرتے علی اکبر تو جھکا فرق کو مجرا
ہر مرتبہ مل جاتا تھا پاؤں سے سر ان کا
تعظیم کو ہوتے تھے کھڑے سید والا
کہتے علی اکبر کہ یہ کیا کرتے ہو بابا
شہ کہتے تھے عادت تھی یہ محبوب خدا کی
تعظیم وہ کرتے تھے بتول عذرا کی

اے جان پدر ہے مجھے واجب تری توقیر
تو سر سے قدم تک ہے مرے نانا کی تصویر
تب جوڑ کے ہاتھوں کو وہ نو بادہ ٔ شبیر
گردن کو جھکا شرم سے کرتا تھا یہ تقریر
بس ختم شرافت ہوئی فرزندہ علی پر
رکھا ہے قدم آپ نے دوش نبوی پر

تب لیتے تھے پیشانی کا بوسہ شہ ذی شان
کہتے تھے کہ شیریں سختی پر تری قربان
زینب نے سنے راز و نیاز ان کے یہ جس آن
چلائی کہ دونوں پہ تصدق ہو مری جان
دیکھا نہ کوئی باپ اگر ابن علی سا
بیٹا بھی سنا ہے کوئی ہم شکل نبی سا

سن لو علی اکبر کی زیارت کا قرینہ
پہلے تو کدورت سے کرو صاف یہ سینہ
پھر دیدۂ باطن کو کرو دیدۂ بینا
تا جلوہ نما ہو رخ سلطان مدینہ
معلوم ہوا صفحۂ قرآں علی اکبر
تحقیق ہوا کعبۂ ایماں علی اکبر

قرآن کی تشبیہ یہ اس دل نے بتائی
پیشانیٔ انور ہے کہ ہے لوح طلائی
ابرو سے ہے بسم اللہ قرآں نظر آئی
جدول کشش زلف کی قاروں نے دکھائی
وہ زلف وہ بینی الف و لام رقم ہے
پر میم دہن مل کے یہ اک شکل الم ہے

اور کعبۂ دلہا کی یہ تمثیل ہے اظہر
یہ خال سیہ ہے حجر الاسود زیور
محراب حرم پیش نظر ابروے اکبر
یہ چاہ ذقن ہے چہ زمزم کے برابر
اس بینئ اقدس کا مجھے دھیان گر آیا
کعبہ میں دھرا نور کا منبر نظر آیا

دیکھو کہ صفا ہے رخ اکبر سے نمایاں
یاں سعی میں ہردم ہے دل زینب نالاں
کعبہ جو سیہ پوش ہے اے صاحب عرفاں
یاں بھی رخ انور پہ ہیں گیسوے ٔ پریشاں
اس زلف میں پابند دل شاہ امم ہے
زنجیر میں کعبے کی یہ قندیل حرم ہے

کیا قدر کوئی پائے مبارک کی سنادے
یہ رکن ہیں کعبہ کے اگر فہم خدادے
انصاف کرو تم کو خدا اس کی جزا دے
اس رکن کو یوں امت بے دین گرادے
حج تم نے کیا کعبے کا جب چشم ادھر ہے
معنی حج اکبر کے یہی ہیں جو نظر ہے

سب آتے ہیں کعبے نے یہ ہے مرتبہ پایا
یہ قبلۂ ایمان ہدایت کا جو آیا
آہوے حرم جان کے مجروح بنایا
اور خون کا دریا تھا ہر اک سمت بہایا
قربانی ہو کعبے میں یہ فرمان خدا ہے
یہ کعبہ تو امت ہی یہ قربان ہوا ہے

حسن علی اکبر تو سنایا نہیں جاتا
کچھ دل ہی مزا چشم تصور میں ہے پاتا
اس قد کا اگر باغ میں مذکور ہے آتا
تب سرو انگشت شہادت کو اٹھاتا
پیشانی تو آئینہ لب ریز صفا ہے
ابرو ہے کہ خود قبلہ ہے اور قبلہ نما ہے

مانند دعاے سحری قد رسا ہے
ماتھا ہے کہ دیباچہ انوار خدا ہے
دو زلف نے اک چاند سا منہ گھیر لیا ہے
وصل شب قدر و شب معراج ہوا ہے
دو زلفیں ہیں رخسار دل افروز بھی دو ہیں
ہاں شام بھی دو ہیں بہ خدا روز بھی دو ہیں

ہے چشم سیہ بس کہ تہہ ابروے خم دار
سو پنچۂ مژگاں کو اٹھائے تن بیمار
محراب کے نیچے یہ دعا کرتے ہیں ہربار
اس چشم جہاں بیں کو نہ پہنچے کوئی آزار
گیسو نہیں یہ سنبل فردوس نشاں ہیں
یہ چشم نہیں نرگس شہلائے جہاں ہیں

ہونٹوں سے کبو دی جو عطش کی ہے نمودار
ہوتا ہے دھواں آتش یاقوت سے اظہار
غصے سے جو ابرو میں شکن پڑتی ہے ہربار
ہالہ اسے سمجھے ہیں سرو ہی کا وہ کفار
ابرو جو ہر اک موے مبارک سے بھرا ہے
اعجاز سے شمشیر میں نیزوں کو دھرا ہے

اس ابروو بینی میں یہ پائی گئی صورت
جس طرح مہ عید پہ انگشت شہادت
شمع حرم حق نے کیا سایۂ وحدت
گوہر یہ نیا لایا ہے غواص طبیعت
مطبوع ہر اک شکل سے پایا جو رقم کو
یاں رکھ دیا نقاش دو عالم نے قلم کو

خط جلوہ نما عارض گلگوں پہ ہوا ہے
مصحف کو کسی نے ورق گل پہ لکھا ہے
یہ چشم یہ قد حسن میں اعجاز نما ہے
ہاں اہل نظر سرو میں بادام لگا ہے
تیروں سے سوا ترکش مژگاں کا اثر ہے
دشمن کے لیے ریزۂ الماس جگر ہے

کانوں کا تہ زلف مسلسل ہے اشارہ
دو پھول ہیں سنبل میں نہاں وقت نظارا
کس کو صفت حسن بنا گوش کا یارا
خورشید سے دیکھو تو ٹپکتا ہے ستارا
چہرہ غرق آلودہ دم صف شکنی ہے
خورشید پہ ہر قطرۂ سنبل یمنی ہے

برگشتہ مژہ اس کی یہ کرتی ہے اشارے
برگشتگیٔ عمر کے سامان ہیں سارے
مژگاں کے یہ نیزے جو خمیدہ ہوئے بارے
دھڑکا ہے کہ نیزہ کوئی اکبر کو نہ مارے
یک چشم زدن میں جو فلک اس سے پھرے گا
اس چشم کے مانند یہ نیزوں سے گھرے گا

لب ہیں کہ ہے دریائے لطافت بہ سراوج
اس اوج میں پیدا یم قدرت کی ہوئی موج
ہیں فرد نزاکت میں مگر دیکھنے میں زوج
دو ہونٹ ہیں اور پیاس کی ہے چاروں طرف فوج
بند آنکھیں ہیں لب خشک ہیں اور عالم غش ہے
اور منہ میں زباں ماہی دریاے عطش ہے

کس منہ سے کرے اب کوئی مدح درد نداں
کچھ قدر نہیں در عدن کی جہاں چنداں
تارے سے چمکنے لگے جس دم ہوئے خنداں
مضمون یہ ہے قابل دشوار پسنداں
یہ قاعدہ کلی ہے نہ ہو مدح بشر سے
کلی کوئی جب تک نہ کرے آب گہر سے

گردن ہے کہ فوارۂ نور ازلی ہے
یہ دوش تو ہم دوش بدوش نبوی ہے
سینہ ہے کہ آئینہ وضع احدی ہے
دل صاف نظر آتا ہے آئینہ یہی ہے
ان ساعدو ساقین کے رتبے کہو کیا ہیں
یہ چار مگر ماہی دریاے صفا ہیں

پشتینوں سے یہ پشت ہے ہم پشت پیمبر
لیکن شہ مظلوم چڑھے پشت نبی پر
یہ پشت پہ شبیر کی بیٹھا ہے مکرر
لے فرق سے تانا خن پا نور سراسر
کیا فرق ہے موسیٰ میں اور اس ماہ لقا میں
واں ہاتھ میں اور یاں ید بیضا کف پا میں

اور تن پہ سلاح خربی خوبی سجا ہے
یہ خود نہیں سایہ افضال خدا ہے
نیزہ نہیں شبیر کا یہ دست دعا ہے
یا بانوۓ مغموم کی فریاد رسا ہے
چار آئینے میں چار طرف عکس پڑے ہیں
یا بہر مد دپنچ تن پاک کھڑے ہیں

شبیر تو اس کے تن عارض پہ فدا ہے
زینب کا تو پوچھو نہ جو کچھ حال ہوا ہے
عابد کو قلق اس کی جدائی کا بڑا ہے
بانو کا تو سر خاک یہ اس غم سے جھکا ہے
یہ چار نہیں پھول جو تزئین سپر ہیں
بالائے سپر چاروں کے یہ داغ جگر ہیں

یہ تیغ کلید در اقبال و ظفر ہے
ہر سمت کو وا جس کے لیے زخم کا در ہے
حلقہ یہ زرہ کا نہیں تن رشک قمر ہے
سو تن سے ملا دیدۂ ارباب نظر ہے
گھوڑا تو ہے خاکی پہ خمیر آب بقا ہے
گرمی میں جو آتش ہے تو سرعت میں ہوا ہے

میں چشم تصور میں لگا کھینچنے تصویر
بس ذہن میں سرعت سے نہ ٹھہرا کسی تدبیر
جب بندش مضمون میں باندھا دم تحریر
دی کلک نے آواز پری کو کیا تسخیر
ڈھیلی جو ہوئی باگ تصور کی ادھر سے
جوں عمر رواں ہوگیا معدوم نظر سے

اس گھوڑے کی سرعت کہو کیوں کر کروں مرقوم
جوں حرف غلط حرف ہوئے جاتے ہیں معدوم
کونین میں یہ تیز روی کے جو ہیں مفہوم
یاں ہوتا ہے معلوم نہ واں ہوتا ہے معلوم
مرقوم ثنا صفحۂ کاغذ پہ جہاں ہو
ہر حرف وہیں مورچے کی طرح رواں ہو

کیوں مومنو تصویر پیمبر نظر آئی
لیکن تمہیں کس وقت میں صورت یہ دکھائی
جب باپ میں اور بیٹے میں ہوتی ہے جدائی
بس خوش ہیں کہ ہم نے بھی رضا جنگ کی پائی
خود قید مصیبت سے تو آزاد ہوئے ہیں
ماں باپ یہاں مفت میں برباد ہوئے ہیں

اٹھارہواں سال ہوگیا ایسا اسے بھاری
یہ تیغ نظر کس کی اسے لگ گئی کاری
ماں باپ کی برباد ہوئیں حسرتیں ساری
یوں سامنے سے چاند سی تصویر سدھاری
حسرت کا مرادوں کا یہ ارمان کا دن تھا
اٹھارہ برس پال کے یہ موت کا سن تھا

ماں ہتی کہتی بیٹا مجھے پسا اپنے بلاؤ
شہ کہتے تھے اس سینے کی آتش کو بجھاؤ
سجاد یہ چلاتے تھے بستر سے اٹھاؤ
کہتی تھی سکینہ مجھے ٹوپی تو پنہاؤ
زینب یہی کہتی تھی کہ اے صاحبو کیا ہے
اٹھارہ برس والا بھی مرنے کو چلا ہے

اکبر کا یہ عالم ہے کہ بس روبہ قضا ہیں
اک منتظر آمد شاہ شہدا ہیں
کہنے سے جو چھٹتے ہیں تو مشغول بکا ہیں
جس روز سے پیدا ہوئے وہ نور خدا ہیں
اس روز سے ماں باپ کی چھاتی کے تلے ہیں
اور آج نکلتے ہیں تو مرنے کو چلے ہیں

بیٹا تو ادھر واسطے مرنے کے سدھارا
یاں شاہ نے سر چوب در خیمہ سے مارا
بانو نے ادھر ہائے پسر جب کہ پکارا
گھونسا سا لگا آ کے کلیجے میں دوبارا
کہتے ہیں کہ ہیں سامنے جاتے علی اکبر
لیکن نہیں ہم کو نظر آتے علی اکبر

ہیں خاک پہ بیٹھے ہوئے اور فرق جھکا ہے
فرماتے ہیں یہ مسند شاہ شہدا ہے
گہ سر کو اٹھاکر یہی مضمون دعا ہے
لے آج یہ بیٹا بھی تری نذر کیا ہے
راضی ہوں میں تو داغ پسر دیجیو مجھ کو
پر شرط یہ ہے صبر عطا کیجیو مجھ کو

ادنی ٰترا بندہ ہوں سو طاقت مری کیا ہے
اس داغ کا دل ہو متحمل تو مزا ہے
میرا بھی تو اب کوچ کا سامان لگا ہے
دوچار گھڑی کا یہ پس و پیش ذرا ہے
بانو پہ عجب طرح کی آفت یہ پڑی ہے
یارب تری لونڈی کی مجھے فکر بڑی ہے

آئی تھی یہاں چھوڑ کے شاہی کو وہ دل گیر
سو تونے دیا تھا شرف بستر شبیر
آزاد کیا لونڈیوں کو دے دے کے جاگیر
بیٹا جو ملا تھا سو محمد کی تھی تصویر
ہاں ایک یہ دولت اسے امداد ہوئی ہے
سو ہاتھ سے امت کے وہ برباد ہوئی ہے

ہے بازو کو تھامے ہوئے کنبہ مرا سارا
کہتی ہے کہ لوگو کہو آیا مرا پیارا
نیزہ تو ابھی اس کو کسی نے نہیں مارا
جیتا ہے تو پھر کیوں مجھے اب تک نہ پکارا
اب موت کے پھندے میں مرا ماہ جبیں ہے
بے میرے تو اک آن اسے چین نہیں ہے

ہنستے ہوئے آتے تھے جو رخصت کے ارادے
کہتے تھے کہ اماں تمہیں اب صبر خدا دے
میں نے کہا آہستہ سے سر اپنا لگادے
واری گئی اللہ تری پیاس بجھادے
رخصت کا سخن دیکھ نکلتے ہوئے لب سے
کی تھی ابھی کیا کیا مجھے تسلیم ادب سے

اے صاحبو اب خاک پہ بانو کو بٹھادو
کالی کفنی ہو تو مجھے لا کے پنہا دو
اس کوکھ پہ اب خاک کا پھایا بھی لگادو
جس راہ گیا ہو وہ مجھے راہ بتا دو
اس دھوپ میں راہی وہ مرا لال ہوا ہے
اب پیاس سے کیا جانیے کیا حال ہوا ہے

زینب نے کہا ہائے کہاں جاؤگی بھابھی
روکے در خیمہ کو کھڑے ہیں شہ عالی
اصغر ترا مرتا ہے اٹھالے اسے بی بی
بانو نے کہا آہ خبر ہے مجھے کس کی
اصغر سے تو امید نہیں چند نفس کی
لٹتی ہے کمائی مری اٹھارہ برس کی

ہے یاس کا یہ ساماں سنو دشت کا ساماں
واں جاتے ہیں خوش خوش علی اکبر سوئے میداں
سب عرش الہی کی سی شوکت ہے وہی شاں
آتا ہے بڑی دھوم سے جیسے کوئی سلطاں
کہتا ہے نقیب اجل انصاف کی جاہے
دیکھو کہ جواں مرنے کو کیا شیر چلا ہے

اک سمت رکاب اس کی ہے تھامے ہوئے حشمت
اور اک طرف باگ کو پکڑے ہوئے نصرت
شاطر کی طرح آگے قدم مارتی دولت
اقبال و ظفر چتر لگائے پئے خدمت
اک نور سے ہر چار طرف دشت بھرا ہے
اور حسن نے خود غاشیا کاندھے پہ دھراے

نہ لاکھ میں یہ رعب کی آمد ہے نہ سو میں
دل تھامے ہوئے احمد مختار جلو میں
روح اسداللہ چلی آتی ہے رو میں
اور فاطمہ رہوار کے پیچھے تگ ودو میں
لپٹی ہوئی بس گر دسواری سے اسی کی
آتی ہے چلی جان حسین ابن علی کی

واں فوج میں حیرت سے ہر اک شخص ہے تکتا
ہر دار کو سکتہ ہے کہ بس ہل نہیں سکتا
کہتا ہے کہ دیکھو تو ہے کیا نور چمکتا
ہر عضو سے ہے حسن خدا داد ٹپکتا
کیا نور ہے کیا دبدبہ کیا جلوہ گری ہے
خورشید بھی یاں مثل چراغ سحری ہے

ہم قیصر روم اس کو جو سمجھیں تو بجا ہے
فغفور کہیں چین کا تو اس سے سوا ہے
خاقان حتن گر کہیں اس کو تو خطا ہے
جن کہیے تو جن میں یہ کہاں حسن و ضیا ہے
واللہ خوشا باپ کہ یہ جس کا خلف ہے
پیدا ہے شرافت سے کہ یہ در نجف ہے

نذریں دو اسے چل کے اور اس فوج میں لاؤ
محکوم ہو تم سب اسے سردار بناؤ
یہ چتر مرصع سر اقدس پہ لگاؤ
شبیر کو بلوا کے یہ صورت تو دکھاؤ
کرتے ہیں بہت فخر گھرانے پہ نبی کے
بس یاں یہ مقابل ہے حسین ابن علی کے

بہتر ہے جو بلوا کے کہو کیوں شہ تنہا
تھا حسن کا اکبر کے نہایت تمہیں دعوا
اب لا کے کھڑا دونوں کو کردیجئے یک جا
دنیا میں پڑے بندۂ اللہ ہیں کیا کیا
گو حسن کا اکبر کے بھی عنوان یہی ہے
کیوں اے شہ ذی شان کہو شان یہی ہے

تشویش میں تھی فوج کہ اس میں علی اکبر
کرنے لگے میداں میں رجز خوانیاں بڑھ کر
ہوں یوسف گل پیرہن سبط پیمبر
جویائے خزان چمن حسرت مادر
ننھیال سے ددھیال سے یہ حسب و نسب ہے
اک شاہ عجم ایک شہنشاہ عرب ہے

سلطان کفن پوش ہوں در حق کا سناسا
ناشاد ہوں نکلا نہیں در مان ذرا سا
پوتا شہ مرداں کا ہوں کسرا کا نواسا
مظلوم کا مظلوم ہوں اور پیاسے کا پیاسا
تصویر مری جلد مٹاؤ کوئی آ کر
برچھی مرے سینے پہ لگاؤ کوئی آکر

یہ سنتے ہی لشکر میں تلاطم ہوا اک بار
سوچے کہ یہی ہے پسر حیدر کرار
ترغیب میں تو تھا عمر سعد بد اطوار
پر مستعد قتل ہوا ایک نہ زنہار
کہتے تھے اگر لاشے پہ لاشے ہی پڑیں گے
اس جان جہاں سے نہ لڑیں گے نہ لڑیں گے

لیکن یہاں اکبر کےہے دل میں یہی بس دھیان
اس قوم کے ہاتھوں سے ہوئے قتل چچا جان
واللہ کہ ہیں گبر سے بدتر یہ مسلمان
انسان جو ہوتے تو ہمیں جانتے انسان
ہے دل میں جو ارمان بھر اصف شکنی کا
لے نام علی قصد کرو تیغ زنی کا

بس دوش سے چلا وہ کماں کا جو اتارا
چلے کو بنا گوش تلک کھینچا قضا را
تھا عارض و پیکان و کماں کا یہ اشارا
خورشید ہے اور قوس ہے اور اس میں ستارا
اور اس کا یہ سرعت سے چلا وار کے اوپر
پیکان تھا ایک ایک کے رہوار کے اوپر

اکبر نے کہا ہے مرا مشہور گھرانا
دستور نہیں پہلے کوئی وار لگانا
واجب ہوا تم پر مجھے تلوار چلانا
کیوں ظالمو یوں آل محمد کو مٹانا
تم سب کو کروں قتل مرے سامنے کیا ہو
پانی مجھے مل جائے تو لڑنے کا مزا ہو

زخمی ہوئی سب فوج تو غصہ انہیں آیا
جھنجھلا کے لعنیوں نے نشانوں کو بڑھایا
جلوہ علموں نے بہ سر فوج دکھایا
یاں رانوں میں شہزادے نے گھوڑے کو دبایا
ہستی کو جلاتا تھا فقط نور کا شعلہ
تھا جلوہ نماچار طرف طور کا شعلہ

ابر سیہ ٔفوج کا ایسا ہوا طغیاں
جو چاند حسین ابن علی کا ہوا پنہاں
میداں میں اٹھا تھا غبار سم اسپاں
تاریک ہوا دیدۂ خورشید درخشاں
جاتی تھی چلی جان عدو چھوڑ کے تن کو
اکبر نے سیا سوزن مژگاں سے کفن کو

نیزے سے کہیں زخم لگاتا کہیں شمشیر
بینی کہیں ابرو کی کہیں چشم کی تصویر
تھا بسکہ تماشائی وہ نوبادہ ٔشبیر
خورشید کی عینک کو دھرے تھا فلک پیر
چار آئینہ یوں توڑ کے نیزہ وہ ادھر جائے
جس طرح کہ عینک سے نگہ صاف گزر جائے

تھا آب دم تیغ سے طوفان کا اسباب
تھی موج فنا سر سے گزرتا تھا پڑا آب
دریا تھا وہ لشکر تو ہر اک حقلہ تھا گرداب
اعضاے بریدہ صفت ماہی بے آب
آب دم خنجر پہ علم داروں کے دم تھے
جب تیغ علم کی تو علم صاف قلم تھے

یوں میان کے درمیان سے باہر ہوئی تلوار
جوں پھوٹ کے باہر نکل آئے بدن خار
اک قطرۂ آب اس کو جو کہئے ہے سزاوا
آتش مگر اس آب سے ہوتی تھی نمودار
تھا سرووہ نیزہ پہ ہوا دار بدوں کو
وہ سرو گراتا تھا مگر سروقدوں کو

شمشیر جو تھی رنگ میں الماس کی تمثال
مرجان کی تھی شاخ کہ بس خوں سے ہوئی لال
تیروں کے لعینوں کے تواتر پہ چلے بھال
مانند زرہ تھیں سپریں ہاتھوں میں غربال
تھی چشم زرہ پوش شجاعت کے جوبل میں
اک دم میں گرفتار ہوئے دام اجل میں

تھے کاسۂ سر دشمنوں کے ٹھوکریں کھاتے
وہ تخم شتر مرغ کی صورت نظر آتے
تیروں کے عقاب اپنی یہ صورت ہیں دکھاتے
طعمہ جگر لشکر اعدا کا بناتے
مجروح بس اک تیر میں سو سو کا جگر ہو
جس طرح کہ سودانوں میں رشتے کا گذر ہو

اک آن میں لشکر متفرق ہوا سارا
اک جا پہ ٹھہر کر ہوا اجماع دوبارا
نعرہ پسر سعد نے سرداروں کو مارا
اکبر سے کرو مکر کوئی جلد خدارا
زور اس میں ہیں تین اور اکیلا یہ جری ہے
حیدر ہے پیمبر ہے حسین ابن علی ہے

دو شخص تھے لشکر میں عراقین کے مشہور
تھا ابن علی اک تو اک صالح مغرور
استاد عرب تھے فن نیزہ میں وہ مقہور
کچھ مشورہ کر کرکے وہ لشکر سے ہوئے دور
اک روبرو اکبر کی زدوکشت پر آیا
نیزے کو ہلاتا ہوا اک پشت پر آیا

دونوں سے غرض چلنے لگے نیزہ خوں خوار
گہہ اس کا گہے اس کا کھڑے روکتے تھے وار
اک برق الٹتی تھی پلٹتی تھی ہر اک بار
گھوڑا تھا دیا کل کا بنایا ہوا رہوار
نیزہ وہ نہ تھا شعلۂ جوالہ ہوا تھا
گرد مہ رخسار عجب بالہ ہوا تھا

کہتے تھے ملک جرأت اکبر یہ فدا ہیں
گویا احد وبدر میں محبوب خدا ہیں
جن کہتے تھے خود آج علی گرم وغا ہیں
دو دو سے تو لڑتے ہیں مگر ہوش بجاہیں
حوریں یہی کہتی تھیں کہ زہرا جو رضا دیں
کوثر کا بھرا جام ابھی لا کے پلا دیں

حوروں سے یہ فرماتی تھیں خاتون قیامت
اک آدھ گھڑی اور ہے یہ پیاس کی شدت
کیا ہووے گی اس مادر غم دیدہ کی حالت
اس لال کے لینے کو گئے شاہ ولایت
اک دم میں کلیجہ یہ سناں کھاتا ہے اکبر
حورو لب کوثر پر چلا آتا ہے اکبر

یاں وار کیا پشت پہ صالح نے قضارا
اکبر نے پلٹ کر وہیں نیزہ اسے مارا
اتنے ہی پلٹنے نے غضب کردیا سارا
بس سر کے بل آیا نہ رہا سانس کا یارا
واں شاہ گرے بانو کو غش آگیا گھر میں
اک نیزے نے سوراخ کئے تین جگر میں

جب توڑ کلیجے کو گیا پشت میں بھالا
تھرا گئے اکبر تو اٹھا سینے سے نالا
اللہ ری جرأت وہیں نیزے کو نکالا
غش آگیا ہر چند بہت دل کو سنبھالا
جب چھائی اجل اس دل مایوس کے اوپر
کس یاس سے سر رکھ دیا قربوس کے اوپر

تھیں برچھیاں بھی نیزے بھی تلواریں بھی ہرسو
عمامہ بھی پرزے ہوا کٹ کٹ گئے گیسو
کہتے تھے کہ آتی نہیں بابا کی کہیں بو
کی گھوڑے نے اپنے سے بچانے میں تگ و دو
وارث تو نہ تھا کوئی بہ جز پنج تن اس کا
جس طرح سے چاہا کیا ٹکڑے بدن اس کا

شادی سے لگے چار طرف لوگ اچھلنے
اس شور میں دی کوچ کی آواز دہل نے
کہتے تھے کہ مت دیجیو زخمی کو نکلنے
بس باگ پکڑلی وہیں گھوڑے کی اجل نے
پاتا نہ کہیں راہ نکلنے کو وہاں تھا
گھوڑا صفت تختہ ٔتابوت رواں تھا

یاں شاہ کو ناگہ دل اکبر نے ندا دی
کیا بیٹھے ہو واں بجتے ہیں نقارۂ شادی
نانا کی جو تصویر تھی اعدا نے مٹا دی
حضرت نے وہیں خاک پہ دستار گرادی
زینب کو صدا دی کہ بہن مرگئے اکبر
بھاوج سے خبردار سفر کر گئے اکبر

لکھا ہے کہ نعرہ وہاں شبیر نے مارا
جس نعرے سے سب دشت بلا ہل گیا سارا
گھبراتا تھا یوں شیر الٰہی کا وہ پیارا
بچہ کہیں جوں شیر کا کھوتا ہے قضارا
جب کرتے تھے غل ہائے علی وائے علی کا
تھا جھوم رہا عرش جناب احدی کا

کہتے تھے ملک شاہ کو اکبر سے ملادے
یا تو ہمیں دنیا میں اترنے کی رضا دے
دنیا کی رضا دے ہمیں اور حکم وغا دے
ان ظالموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے
یعقوب ہے یہ دشت ہے بیت الحزن اس کا
ہاں جلد ملا یوسف گل پیرہن اس کا

خالق کی صدا آئی فرشتوں کو کہ جاؤ
مردا اسے فرزند کالے جاکے دکھاؤ
ناشاد کو بچھڑے ہوئے بیٹے سے ملاؤ
شبیر اگر مانے تو دکھ درد بٹاؤ
ہے اس پہ مسلط کیا اس واسطے غم کو
یہ صبر حسین ابن علی بھاتا ہے ہم کو

یاں متصل فوج جو پہنچے شہ ذی جاہ
ہر ایک سے کہتے تھے بتاؤ مجھے لللہ
جس خاک پہ تم سب نے گرایا ہے مراماہ
گم ہوگیا بیٹا مرا روکو نہ مری راہ
ہے حق بہ طرف اب جو مرا حال دگر ہے
دنیا میں کسی باپ کا اکبر سا پسر ہے

تم سب نے مرا لال ہے کس طرح کا مارا
سنتا ہوں کہ مجروح کلیجہ کیا سارا
مجھ باپ کو دیکھو کہ رہا محو نظارا
دل ہل گیا جب یا ابتا اس نے پکارا
لو پاس کا انسان دکھائی نہیں دیتا
اب کچھ مجھے آنکھوں سے سجھائی نہیں دیتا

سب گھر تو مرا صاف کیا تم نے جفا سے
کیسے مرے دل دار کیے ذبح پیاسے
جس شخص میں ہوں رحم کے آثار ذرا سے
وہ ہاتھ مرا تھام لے اب ڈر کے خدا سے
جس راہ سدھارا وہ مجھے راہ بتادو
بس دور سے لاشہ علی اکبر کا دکھادو

ڈرتے ہو تو آؤ مری شمشیر و سپر لو
اندیشہ جو ہو دل میں تو قیدی مجھے کرلو
تم گر دچلو اور مجھے بیچ میں دھرلو
دو لال مرا مجھ کو مرے جسم سے سرلو
سید پہ کرو رحم مسلمان سمجھ کر
کیا ترس بھی آتا نہیں انسان سمجھ کر

ناگاہ صدا دور سے یہ کان میں آئی
کیوں قبلہ حاجات بڑی دیر لگائی
کس وقت میں حضرت نے مری یاد بھلائی
اس کی خبر اماں نے بھی پائی کہ نہ پائی
وہ سامنے میرے ملک الموت کھڑا ہے
جلد آئیے اب درد کلیجے میں بڑا ہے

سن کر یہ صدا کچھ تو ہوا دل کو سہارا
چلائے کہ ہے ڈھونڈھ رہا باپ تمہارا
ہم کیا کریں بیٹا نہیں کچھ جرم ہمارا
آخر ہوا جاکر یہ سر نعش گزارا
دیکھا کہ ہے بیٹھا ہوا گھوڑا تو زمیں پر
تن خاک پہ گردن ہے دھری خانۂ زیں پر

چھاتی پہ دھرا ہاتھ ہے اور خوں ہے ابلتا
تھم تھم کے لہو سانس کے ہم راہ نکلتا
منہ زرد ہے جس طرح کہ خورشید ہو ڈھلتا
ماتھے پہ عرق آیا ہے اور دل ہے اچھلتا
مشتاق پدر دیر سے ہر چند ہیں آنکھیں
کھلتی ہیں کبھی اور کبھی بند ہیں آنکھیں

بے ساختہ اس دم شہ مظلوم پکارے
لو جان پدر آئے ہیں ہم پاس تمہارے
بولا نہ گیا جب کیے ابرو سے اشارے
رکھ دیجئے نعلین کو سینے پہ ہمارے
جینے کی نہ دنیا کی نہ کوثر کی ہوس ہے
اس وقت مجھے زانوے مادر کی ہوس ہے

حضرت نے اسے گود میں پہلے تو سنبھالا
پھر پھول کے مانند اٹھا گھوڑے پہ ڈالا
اکبر نے کہا آہ مرا زخم ہے آلا
شہ نے کہا ہے ناوک دل اور یہ نالا
اس درد کی شدت میں جو لے جاؤں تو کیوں کر
جیتا ہو اماں تک تمہیں پہنچاؤں تو کیوں کر

گر درد یہی ہے تو گزر جاؤ گے اکبر
ماں تک بھی نہ پہنچو گے کہ مرجاؤ گے اکبر
بے کس پدر پیر کو کرجاؤ گے اکبر
میں بھی وہیں جاؤں گا جدھر جاؤ گے اکبر
یہ آخری دیدار اسے دکھلاؤ تو بہتر
جیتے ہوئے ماں تک جو پہنچ جاؤ تو بہتر

تھے با سرعریاں تو حسین آپ روا نا
خود باگ کو تھامے ہوئے سلطان زمانا
کہتے تھے کہ گھوڑے قدم آہستہ بڑھانا
تو زخم نہ اکبر کے کلیجے کا دکھانا
فرزند کا بانو کے بدن چور ہے گھوڑے
یہ مجھ کو دکھانا اسے منظور ہے گھوڑے

گھوڑا تو رواں ہوتا تھا ہر چند کو تھم تھم
ہر گام پہ بس ٹوٹنے لگتا تھا یہاں دم
دس بیس قدم اس نے اٹھائے نہ تھے پیہم
یاں ہونے لگا سانس کابس اور ہی عالم
خیمہ رہا نزدیک تو اتنی ہی تکاں میں
روح علی اکبر گئی گلزار جناں میں

پانو نے یہاں دیکھ لیا شاہ کا سایا
چلائی کہ صاحب کہو یوسف مرا آیا
تم نے اسے کس واسطے گھوڑے پہ لٹایا
قربوس پہ رخسار ہے کیوں اس نے جھکایا
وہ دور وہ طاقت وہ توانائی کہاں ہے
لٹکائے ہوئے ہاتھ مرا شیر جواں ہے

مردہ نظر آیا اسے جب متصل آئے
مردے ہی سے ملنے کے لیے ہاتھ بڑھائے
ناموس محمد نے عجب شور مچائے
مل جل کے وہ ہاتھوں پہ اٹھا خیمے میں لائے
اس شیر کے مردے پہ بھی اک رعب بڑا تھا
بس خون میں ڈوبا ہوا اک چاند پڑا تھا

بانو نے غرض بیٹھ کے زانو پہ لیا سر
گیسو کو اٹھا چاند سا مکھڑا کیا باہر
چلائی کہ دو صاحبو پرسا مجھے آکر
نوحہ میں پڑھوں تم کہو ہے ہے علی اکبر
برباد یہاں بانو کی دولت گئی لوگو
اٹھارہ برس کی مری محنت گئی لوگو

اکبرکی وہ دانائیاں اب لگتی ہیں جوں تیر
جب شہ سے رضا جنگ کی لائے تھے بہ تدبیر
منظور ہو اماں سے بھی بخشائیے اب شیر
کرتی تھی زباں شرم سے لکنت دم تقریر
میں نے کہا ہم جان کو واریں علی اکبر
صدقے ہوئیں یہ دودھ کی دھاریں علی اکبر

پھر بانو نے اس زخم سے ہاتھ اپنا اٹھایا
منہ اپنا جھکا کر اسے آنکھوں سے لگایا
بس الفت مادر نے جو اک جوش سا کھایا
اکبر کا دل اس زخم کے رستے نکل آیا
سب دیکھتے تھے فرط محبت کے چلن سے
تادیر وہ لپٹا رہا مادر کے دہن سے

اور آئ صدا پانی نہ ہاتھ آیا ذرا سا
اماں میں پیاسا رہا پیاسا رہا پیاسا
اب چھوڑ دو دامن مرا اے حق کی شناسا
اب مرنے کو جاتا ہے محمد کا نواسا
لاشے پہ مرے آپ نے وہ بین کیا ہے
اس روح پر ارمان کو بے چین کیا

یہ سنتے ہی غش ہوگئی بانو جگر افگار
سب گرد کھڑے ہوگئے گھبرا کے بس اک بار
فرصت جو ملی اتنی تو بادیدۂ خوںبار
لاشے کو اٹھا لے گئے باہر شہ ابرار
باقی علی اصغر کے سوا کوئی نہیں ہے
اب خنجر بے داد و گلوے شہ دیں ہے

جس سال کہے وصف یہ ہم شکل نبی کے
سن بارہ سے انچاس تھے ہجری نبوی کے
آگے تو یہ اندازہ سخن تھے نہ کسی کے
اب سب یہ مقلد ہوئے اس طرز نوی کے
دس میں کہوں سو میں کہوں یہ ورد ہے میرا
جو جو کہے اس طرز میں شاگرد ہے میرا

ہاں کلک بس اب آگے نہیں طاقت تحریر
ہو اور زیادہ تری تحریر میں تاثیر
کہتا ہے ضمیر اب کہ براے شہ دل گیر
محبوب علی جان نبی حضرت شبیر
اس مرثیے کا بس یہ خدا مجھ کو صلا دے
اکبر کا تصدق مری اولاد جلادے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.