کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
کیا ہے کیوں مشہور میں سودائی بازاروں میں ہوں
غم نہیں جو بیڑیاں پہنے گرفتاروں میں ہوں
ناز ہے اس پر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں
تیرے کوچے میں جو میرا خون ہو اے لالہ رو
سرخ رو یاروں میں ہوں گل رنگ گلزاروں میں ہوں
اس قدر ہے اے پری رو زور پر جوش جنوں
سر سے توڑوں قید اگر لوہے کی دیواروں میں ہوں
عشق سے مطلب نہ تھا دل زلف میں الجھا نہ تھا
تھا جب آزادوں میں تھا اب تو گرفتاروں میں ہوں
ہوگی معشوقوں کو خواہش مجھ نحیف و زار کی
گل کریں گے آرزو میری میں ان خاروں میں ہوں
دل کو دھمکانا ہے دھیان اس نرگس بیمار کا
جان لے کر چھوڑتا ہوں میں ان آزاروں میں ہوں
اس مرے سودے کا دنیا میں ٹھکانا ہے کہیں
جان کا گاہک جو ہے اس کے خریداروں میں ہوں
کس سے پوچھوں کیا کروں صیاد کی مرضی کی بات
تازہ وارد ہوں قفس میں تو گرفتاروں میں ہوں
آرزو ہے میں وہ گل ہو جاؤں اے رشک چمن
باغ میں دن بھر رہوں شب کو ترے ہاروں میں ہوں
آ گیا دم ضیق میں لیکن نہ یہ ثابت ہوا
کون ہے عیسیٰ مرا میں کس کے بیماروں میں ہوں
ڈریے ایسی آنکھ سے جو صاف اشارے سے کہے
نرگس بیمار ہوں پر مردم آزاروں میں ہوں
دل تو میں صدقہ کروں تم اس پہ میری جان لو
تم ہی منصف ہو کہ میں ایسے گنہ گاروں میں ہوں
کون ہوں کیا ہوں کہاں ہوں میں نہیں یہ بھی خبر
خود غلط خود رفتہ ہوں میں خاک ہوشیاروں میں ہوں
ہے یہ ابرو کا اشارا تھی جہاں کی ذو الفقار
اے شرفؔ میں اس سلح خانے کی تلواروں میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |