کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز
کس کے ہیں زیر زمیں دیدۂ نم ناک ہنوز
جا بجا سوت ہیں پانی کے تا خاک ہنوز
گل زمیں سے جو نکلتا ہے برنگ شعلہ
کون جاں سوختہ جلتا ہے تہ خاک ہنوز
ایک دن گھیر میں دامن کا ترے دیکھا تھا
گرد پھرتے ہیں گریباں کے مرے چاک ہنوز
جستجو کر کے تجھ آفت کو بہم پہنچایا
باز آتے نہیں گردش سے یہ افلاک ہنوز
باغ میں جب سے گیا تھا تو خمار آلودہ
گل ہیں خمیازے میں انگڑائی میں ہیں تاک ہنوز
زخم دل پر ہے مرے تیغ جنوں کا ناصح
تو گریبان کا ناداں سیے ہے چاک ہنوز
کیوں کے سوداؔ میں کروں وصف بنا گوش اس کا
کی نہیں آب گہر سے یہ زباں پاک ہنوز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |