کشتی ہے تباہ دل شدوں کی
کشتی ہے تباہ دل شدوں کی
لینا خبر اپنے بے خودوں کی
اے سرو سہی کے ایک گلشن
چلیو مت چال خوش قدوں کی
کیوں کر وو کرے سلوک ہم سے
خاطر ہے عزیز حاسدوں کی
تعمیر کنشت دل ہوا جب
زاہد نہ بنا تھی مسجدوں کی
کہنا مت مان واعظوں کا
بیہودہ ہے بات بیہدوں کی
داڑھی نہ رہے گی شیخ صاحب
صحبت میں نہ بیٹھو امردوں کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |