کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط

کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط
by ولی عزلت

کفر مومن ہے نہ کرنا دلبراں سے اختلاط
کر لیا کعبے نے بھی کے دن بتاں سے اختلاط

بندہ اس بلبل کا ہوں جو بوئے گل کے واسطے
گرم رکھے ہائے ہر خار خزاں سے اختلاط

خاکساروں کی ہے الفت رہروان عشق سے
جیسے گرد راہ کا ہے کارواں سے اختلاط

کیوں نہ ہووے پختہ و بر جستہ روشن دل کا شعر
دود و شعلے سا سخن کو ہے زباں سے اختلاط

دل شکن کے واسطے دست دعا عزلتؔ اٹھائے
جیسے غنچے کا نسیم گلستاں سے اختلاط

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse