کلال گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کا جام کرتا
کلال گردوں اگر جہاں میں جو خاک میری کا جام کرتا
تو میں صنم کے لبوں سے مل کر عجب ہی عیش مدام کرتا
جو پاتا لذت بسان مستاں مے محبت سے تیری زاہد
تو خانقہ سے نکل کے اپنی وہ میکدے میں قیام کرتا
وہ بزم اپنی تھی مے کشی کی فرشتے ہو جاتے مست و بے خود
جو شیخ جی واں سے بچ کے آتے تو پھر میں ان کو سلام کرتا
جو زلفیں مکھڑے پہ کھول دیتا صنم ہمارا تو پھر یہ گردوں
نہ دن دکھاتا نہ شب بتاتا نہ صبح لاتا نہ شام کرتا
وہ بزم اپنی تھی مے خوری کی فرشتے ہو جاتے مست و بے خود
جو شیخ جی بچ کے واں سے آتے تو میں پھر ان کو سلام کرتا
نظیرؔ آخر کو ہار کر میں گلی میں اس کی گیا تھا بکنے
تماشا ہوتا جو مجھ کو لے کر وہ شوخ اپنا غلام کرتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |