کل سیں بے کل ہے مرا جی یار کوں دیکھا نہ تھا
کل سیں بے کل ہے مرا جی یار کوں دیکھا نہ تھا
کیوں نہ ہووے بیتاب دل دل دار کوں دیکھا نہ تھا
ہے بجا گر ہووے غزل خواں مثل بلبل دل مرا
نوبہار گلشن دیدار کوں دیکھا نہ تھا
کیونکہ ہووے زاہد خود بیں مرید زلف یار
اس نے ساری عمر میں زنار کوں دیکھا نہ تھا
اب مشبک ہو گیا اس تیر مژگاں کے طفیل
جس دل نازک نے نوک خار کوں دیکھا نہ تھا
ابرو پر چیں کوں تیرے دیکھ دل حیراں ہوا
کیا مگر شمشیر جوہر دار کوں دیکھا نہ تھا
سینۂ گل دار میرا اس کوں آیا ہے پسند
یار نے شاید کبھی گل زار کوں دیکھا نہ تھا
دیکھ اشک گرم کوں میرے کہا اس نے سراجؔ
میں کبھی اس ابر آتش بار کوں دیکھا نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |