کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
by ریاض خیرآبادی

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہوگا
اے میں قربان وفا وعدۂ فردا ہوگا

حشر کے روز بھی کیا خون تمنا ہوگا
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہوگا

ہم نہیں جانتے ہیں حشر میں کیا کیا ہوگا
یہ خوشی ہے کہ وفا وعدۂ فردا ہوگا

تو بتا دے ہمیں صدقے ترے اے شان کرم
ہم گنہ گار ہیں کیا حشر ہمارا ہوگا

لاکھ پردوں میں کوئی اے نگہ شوق رہے
دیکھ لے گا جو کوئی دیکھنے والا ہوگا

ایسی لے دے ہوئی آ کر کہ الٰہی توبہ
ہم سمجھتے تھے کہ محشر میں تماشا ہوگا

سعی ہر گام میں کی ہے یہ سمجھ کر ہم نے
وہی ہوگا جو مشیت کا تقاضا ہوگا

پی کے آیا عرق شرم جبیں پر جو کبھی
چہرے پر بادہ کشو نور برستا ہوگا

رہنے دے گا نہ دم ذبح کوئی حلق کو خشک
میکدے میں ہمیں اتنا تو سہارا ہوگا

مجھے کیا ڈر ہے کہ ہوں گے مرے سرکار شفیع
مجھے کیا ڈر ہے کہ تو بخشنے والا ہوگا

شرم عصیاں سے نہیں اٹھتی ہیں پلکیں اپنی
ہم گنہ گار سے کیا حشر میں پردا ہوگا

کعبہ سنتے ہیں کہ گھر ہے بڑے داتا کا ریاضؔ
زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہوگا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse