کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
کل کا وعدہ نہ کرو دل مرا بیکل نہ کرو
کل پڑے گی نہ مجھے مجھ سے یہ کل کل نہ کرو
کہیں جلا دے نہ اسے شعلۂ آہ عاشق
پلکوں کی ٹٹی کے تئیں آنکھوں کی اوجھل نہ کرو
کر چکی تیغ نگاہ کام تو پل ہی میں تمام
تیر پلکوں کا مقابل مرے پل پل نہ کرو
اس کو ہر شب ہے زوال اس کو نہیں ہے کچھ نقص
بدر کو چہرے سے اس کے متمثل نہ کرو
دکھ نہ پاوے کہیں وہ نازنیں گردن پیارے
تکیہ زنہار سر بالش مخمل نہ کرو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |