کمالات خسروی

کمالات خسروی
by ناصر نذیر فراق دہلوی
319500کمالات خسرویناصر نذیر فراق دہلوی

آفاق ہاگردیدہ ام عشق بتاں و رزیدہ ام
بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری

سلف سے جتنے تذکرہ نویس گزرے ہیں، ان حضرات نے حضرت امیر خسرو طوطی ہند قدس سرہ العزیز کے متعلق صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ آپ ہندی فارسی کے بڑے شاعر تھے۔ اور شاعری کی بعض صنعتوں کے موجد گزرے ہیں۔ کچھ فقیر بھی تھے اور علم موسیقی کو بھی جانتے تھے۔ اپنی استعداد اور حوصلہ کے موافق حضرت کے کلام پر کچھ رائے بھی لکھ دی۔ اللہ اللہ، خیر صلا، تذکرہ نویسی کا حق ادا کر دیا۔ یہ کچھ نہ لکھا کہ آپ باطنی درجہ کیا رکھتے تھے اور علم موسیقی میں کہاں تک دخل تھا۔ مگر یہ دونوں کام ان کے بوتہ کے نہ تھے۔ کیونکہ، کار درویشی ورائے فہم تست۔

تصوف کا انہیں مذاق بھی نہ تھا اور علم موسیقی سے بھی نابلد۔ ان صاحبوں کے نزدیک تصوف اور موسیقی دونوں عبث۔ مگر انہیں خبر نہیں تھی کہ اگر حضرت امیر خسرو دہلویؒ تصوف اور موسیقی میں دستگاہ نہ رکھتے، تو وہ بھی معمولی شاعروں کی طرح گمنام ہو گئے ہوتے۔ اور قبر ڈھونڈھے سے بھی نہ ملتی۔ یہ تصوف ہی کی برکت ہے کہ چھ سو برس سے آج تک آپ کا مزار زر بفت اور اطلس کے غلاف سے جگمگایا کرتا ہے۔ پھولوں کی سیج تیار رہتی ہے۔ اگر سوز میں عود اور خوشبوئیں ہر وقت جلتی رہتی ہیں اور آپ کی خانقاہ کی دہلیز کو خلجی، لودھی اور مغل تاجداروں نے سجدہ کیا ہے اور ہمارے حضور عالی جاہ قیصر ہند اور تمام لارڈ اور وائسرائے اور گورنمنٹ انگلشیہ کے بااقبال جانشین ہماری آنکھوں دیکھتے آپ کے مزار کی زیارت کو شوق کے ساتھ درگاہ میں آئے ہیں۔ اور چونکہ آپ کو بقائے باللہ حاصل ہو گئی ہے، اس لئے امید ہے کہ آپ کے آستانہ پر اہل حاجت کا تانتا قیامت تک لگا رہےگا۔

ابو القاسم فردوسی خدائے سخن گزرا ہے۔ عسجدی، فرخی، خاقانی، انوری، خاک ایران سے کیسے لائق فائق شاعر پیدا ہوئے مگر ان میں سے کسی کے مزار پر خاص و عام کے جھمگٹ ایسے رہتے ہیں جیسے ہمارے امیر صاحب کے آستانہ پر؟ تو مجھے بتاؤ جس خوبی نے حضرت امیر کو اس رتبہ پر پہنچایا ہے اسی سے تذکرہ نویسوں نے جی چرایا ہے۔ افسوس اس چمن کی ہوا بگڑ گئی۔ گل اور غنچہ، برگ اور شگوفہ خزاں نوچ کھسوٹ کر لے گئی اور کاٹھ رہ گئے۔ سائنس یا نئی روشنی اجازت نہیں دیتی کہ امیر خسرو دہلوی کو سوائے شاعر کے ولی بھی کہا جائے۔ اور اگر کہا جائے تو پھر اپنے تئیں جنٹلمینوں کی نگاہ میں حقیر کرنا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت امیر خسروؒ ایک صوفی حق آگاہ تھے اور آپ کے کلام میں جو زندگی ہے، وہ تصوف کی وجہ سے ہے۔ دیکھئے کس قدر کھلم کھلا کہتے ہیں،

مرا زاں آتشے شوقے کہ دامن سوخت اے خسروؔ
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

حضور محبوب پاک جو رات بھر مشاہدہ حق میں جاگتے رہتے، تو آپ کی چشم نرگسیں نیند سے کڑوی ہوکر صبح کو کچھ اور عالم پیدا کر لیتی تھیں۔ اسی کی طرف آپ اشارہ کرتے ہیں،

توشبینہ مینمائی ببرکہ بودی امشب
کہ ہنوز چشم مستست اثرِ خمار دارد

حضور والا کے درجۂ قرب کے متعلق فرماتے ہیں،

گفتم کہ حوری یا پری گفتا کہ من شاہ بتاں
گفتم کہ خسرو ناتواں گفتا پرستارِ منست

حضرت امیرؒ کے کلام قدسی نظام میں جو مکاشفات واردات شہود، وحدت وجود، لطائف وغیرہ تصوف کے مقامات کے کنائے اشارے ہیں، اگر میں ان کی شرح کروں تو عوارف المعارف اور احیاء العلوم اور فتوحات کی طرح ضخیم کتابیں تیار ہو جائیں۔

من و تو ہر دو خواجہ تاشانیم
بندۂ بارگاہ سلطانیم

میرے ہاتھ میں بھی محبوب پاک کا دامن عطر بیز ہے۔ حضرت امیر خسروؒ کی جو شان ہے اسے میں خوب جانتا ہوں۔ علی ہذا تذکرہ نویسوں کے خیال میں موسیقی بھی ڈوم ڈھاڑیوں کے لئے ہے۔ کہیں بھلے آدمی بھی اس میں وقوف رکھتے ہوں گے۔ ہائے میری مری ہوئی دلّی! تجھے آج میں کیونکر زندہ کر کے ان لوگوں کو دکھاؤں جس میں شرافت اور امارت کے لئے موسیقی کا جاننا ایک تمغہ گنا جاتا تھا۔

سراج الدین ابو ظفر بادشاہ دہلی، اس فن کو اچھی طرح جانتے تھے او راہل ہنر سے اسے سیکھا تھا۔ جب کبھی آستانہ محبوبی میں حاضر ہوتے تو مزار شریف کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کرتے۔ آپ کے باپ دادا کا ڈوم حاضر ہے۔ اور پھر تمنیاً و تبرکاً اپنی تصنیف کی کوئی چیز بہت خوش الحانی کے ساتھ گاتے۔ کیونکہ جانتے تھے کہ حضرات چشت کو سماع دل و جان سے پسند ہے۔ میر ناصر احمد بین کار، قطب بخش، چناکنچنی، ٹڑموئی خانم کنچنی، دلدارا عظمیہ نٹنی، یہ حضور کے بزم کے ارباب نشاط تھے۔ جب یہ لوگ گاتے تو حضور ان کو موقع موقع سے داد دیتے تھے اور اگر لے سر کی غلطی ہوجاتی تھی تو فوراً ٹوک دیتے تھے۔ واجد علی شاہ فرماں روائے اودھ نے جس درجہ تک اسے حاصل کیا تھا، وہ سب جانتے ہیں۔ حضرت امیر ابن امیر نواب مستطاب حضور کلب علی خاں نور اللہ مرقدہ، اس فن کے جوہری تھے۔ جب آپ کے سامنے قطب الدولہ گویا گاتا تھا، تو اس کا دل اندر سے ہلا کرتا تھا کہ حضور اس فن کے بڑے سمجھنے والے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہیں غلطی ہو جائے۔

ہمارا گھرانہ خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر خواجہ ناصر امیر مرحوم تک اس فن کا ماہر گنا جاتا تھا۔ ہر مہینے کی دوسری اور چوبیسویں تاریخ کو راگ کی دو محفلیں ہوتی تھیں، جن میں تمام شہر کے قوال اور گویے اور کنچنیاں بے بلائے حاضر ہوتیں۔ اور رات بھر گا بجاکر اپنا اپنا ہنر دکھاتی تھیں۔ اس پیشہ کے جو کسبی باہر سے دلی میں آتے تھے، ان کی قوم کے لوگ ان سے کہہ دیتے تھے، اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے ہنر کی ساری دلی میں دھوم ہو جائے تو خواجہ میر دردؒ کی بارہ دری میں جاکر سجادہ نشین کو کچھ سنا آؤ۔ آپ جس پیشہ ور کی تعریف کردیتے ہیں وہ شہر بھر میں پُج جاتا ہے۔

حضرت شاہ عبد العزیز صاحب اس تقوے اور طہارت پر ہندی موسیقی کے ارتھ وِدّیا کو ایسا جانتے تھے کہ جب گویوں میں اس بات کا جھگڑا ہوتا تھا کہ یہ راگ سنپورن ہے یا سنکیرن، کھاڈو ہے یا اوڈو، تو شاہ صاحب کی خدمت میں آکر عرض کرتے تھے کہ ہمارا فیصلہ کردیجئے۔ شاہ صاحب اس تشریح کے ساتھ انہیں سمجھاتے تھے کہ وہ آپ کے قدم پکڑ لیتے تھے، اور آپ کے فیصلہ کو دل و جان سے مان لیتے تھے۔

فن موسیقی درحقیقت حکمت میں شامل ہے۔ اس کے موجد حکماء گزرے ہیں، جنہوں نے سرگم، یا سیتک کا مزاج الگ بتایا ہے۔ پھر راگ راگنی کی ترکیب سے بحث کی ہے، اور اس کی نسبت نجومی بھی مفصل لکھی ہے۔ اس کے افعال، خواص، تاثیرات کو بیان کرکے بتایا ہے کہ یہ راگ راگنی اس مرض میں فائدہ دیتی ہے۔ اس کے سننے سے فلاں بیماری جاتی ہے۔ اور ہندوؤں کے اعتقاد میں تو راگ الہامی فن ہے۔ اس کا تذکرہ وید میں موجود ہے۔ اور سیکڑوں گرنتھ اور پستکیں اور پوتھیاں سنسکرت میں اس کی تصنیف ہوئی ہیں۔ برہما جی، مہادیو جی، سری کرشن جی، ہنومان جی، دیوتا اور اوتاروں نے اسے مرتب کیا ہے اور داخل عبادت فرمایا ہے۔

ہر راگ اور راگنی ایک روحانیت رکھتی ہے، جس کی ایک باطنی صورت ہوتی ہے۔ جب کوئی گائن بہت ادب اور عقیدت اور صحت کے ساتھ گاتا ہے تو راگ راگنی اپنی روحانیت یا حسن نورانی کو گائن کے اوپر ظاہر کردیتی ہے اور بالمشافہ پرگھٹ ہو جاتی ہے۔ اگر گائن کم ظرف اور دل کا بودا ہوتا ہے تو اس کے روپ سروپ کو دیکھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے۔ ہندومت کے عقیدت مندوں نے اپنے معبودوں کو الاپ چاری اور گلے سے گاکر بھی خوش کیا۔ اور ان کے رجھانے کے لئے ساز بھی ایجاد کئے۔ سارنگی اور بین ایسے باجے ہیں جو گلے کی باریک حرکتوں کو ادا کر دیتے ہیں۔ اور اسی باعث سے دنیا کے سارے سازوں پر، جاننے والوں کے نزدیک ان سازوں کو فوقیت اور ترجیح ہے۔

تال اور لے کے تولنے کے لئے پکھاوج ایسا آلہ بنایا کہ بال بھر کی زیادتی کمی معلوم ہوجاتی ہے۔ اگر یہ فن ایسا عجیب و غریب نہ ہوتا تو حضرت امیر اسے حاصل نہ فرماتے۔ درحقیقت آپ ایران کے فن موسیقی اور ہندوستانی سنگیت ودیا میں فرد کامل تھے۔ اسی باعث سے آپ کو اس فن کے اہل کمال نے نائکوں میں شمار کیا ہے۔ آپ اپنے وقت او ر زمانہ کے نائک تھے۔ نائک شاستر میں سنگیت ودیا کے کامل الفن او ر موجد کو کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی مثال میں مجدد یا امام کا لفظ ہے۔ اور اس کمال کے باعث سے نائک کو جوتی سروپ بھی کہا جاتا ہے۔ جیسے مہادیو جی پون کمار یعنی ہنومان جی۔

سری کرشن جی مہاراج وغیرہ جو لوگ اس فن کے عالم اور حامل ہیں، وہ میری اس تحریر سے سمجھ جائیں گے کہ حضرت امیر خسرو دہلی کا اس ہنر میں کیا پایہ ہے۔ بے شک آپ علم موسیقی کے حکیم اور نائک تھے اور آپ کو اور نائکوں پر بھی فضیلت ہے۔ کیونکہ ہندومت کے نائک صرف ہندوستانی راگ کو جانتے تھے۔ اور آپ ہندوستان اور ایران دونوں ملکوں کی سنگیت ودیا کے استاذ الاستاذ تھے۔ جس طرح آپ نے ہندی، فارسی اور ساری کے ساتھ ترکی عربی الفاظ کو کھچڑی بناکر اردو کی بنیاد ڈالی تھی، اسی طرح آ پ نے ہندی تال اور ادہیّا اور سر ادہیّا میں تصرف کیا۔ دیکھئے خمسہ کی تال آپ نے کس طرح بنائی۔ اس میں پانچ ضربیں برابر ہیں۔ دھن دھن، دھا دھا، دن دن تاتت، دھاکٹشک دھنک، دھناکٹٹک، دھنک۔ دوسرا ٹھیکہ آپ نے چھ تالوں سے قائم کیا اور اس کا نام آپ نے فردوست رکھا۔ اس کے بول یہ ہیں، دھین کڑتک، دھین کڑتک، تھگن تھگن دھن، کڑتک دینا کہٹتا۔

اس کے علاوہ بھی حضرت امیر نے بہت سی تالیں ایجاد کی ہیں۔ اس مختصر میں وہ سب نہیں آسکتیں۔ غالباً ناظرین انہیں دو تالوں کے بول پڑھ کر گھبرا جائیں گے۔ میں نے دو تالوں پر ہی اکتفا کیا ہے۔ میں نے یہ تفصیل بھی نہیں لکھی ہے کہ یہ دونوں کس موقع پر کام دیتی ہیں اور گانے کی کون کون سی چیزوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بھی تفاوت نہیں جتایا کہ اگلی تالوں کی نسبت یہ کس قدر پر لطف ہیں اور انہوں نے قبولیت پائی ہے۔ جنہیں کچھ مذاق ہے وہ سمجھ جائیں گے، اور حضرت امیر کے کلام پر کمال تحسین کریں گے۔ اسی طرح آپ نے راگ راگنیاں بھی متعدد ایجاد کیں۔ مثلاً،

(۱) نمازہ، یہ راگنی یا دھن آپ نے فارسی مقامات سے نکالی اور ایسی دلکش نکالی کہ ہندوستان میں اس سرے سے اس سرے تک مقبول ہو گئی۔ اور سب استادوں نے اسے پسند کر لیا۔ یہ سنپورن ہے اور اس میں سوائے مدھم کے سب سُر تیور لگتے ہیں۔

(۲) زیلف، اس راگ یا دھن کے موجد بھی ہمارے امیر صاحب ہیں۔ اسے آپ نے کھٹ راگنی سے رنگ دیا ہے۔ اس میں شرج پنچم سدھ ہے۔ رکھ مدھم دہائیوت کو مل گاندھار لکھنا دتیور ہیں۔ یہ راگنی رات کے آخر حصہ میں بہت مزہ دیتی ہے۔

(۳) ضلع، اس کے موجد بھی آپ ہی ہیں۔ اور آپ نے اسے کافی اور سدھ سے ملاکر ایسا جاں پرور بنا دیا ہے کہ سبحان اللہ۔ یہ بھی سنپورن ہے۔ جس میں شرج اور پنچم سدھ رکھب اور دہائیوت تیور ہیں۔ اور گاندھار، مدھم، نکھاد، کومل ہیں۔

(۴) سرپردہ، اس کے موجد بھی آپ ہی ہیں۔ یہ راگنی بھی سنپورن ہے۔ آپ نے اسے گور سارنگ، بلاول اور بوریا سے مرکب کیا ہے۔ اسی طرح آپ بہت سے راگوں کے موجد ہیں، اور ان کی تفصیل لکھی جائے تو ایک دفتر بن جائے۔ آپ کے زمانہ میں مسلمانوں کا اقبال اساڑ اور ساون کی گھٹا کی طرح اٹھا چلا آتا تھا۔ افغانستان، ایران، ہندوستان ایک ہو رہے تھے اور ان ملکوں کے اہل کمال دلی چلے آتے تھے۔ ولایتی خنیاگر اور مطربوں کو اپنے نغمہ و سرود پر بڑا ناز تھا، مگر حضرت امیر نے ان سے کہا کہ ہمارے ہندوستان کا علم موسیقی تمہارے ولایت کے موسیقی سے کچھ کم نہیں ہے۔ صرف نام اور ترکیب کا فرق ہے۔ ورنہ جو چیز تمہارے ہاں ہے، اس سے اچھی ہمارے ہاں موجود ہے۔

پھر آپ نے انہیں گاکر سمجھایا کہ دیکھو جن کا نام تمہاری اصطلاح میں رکت اور غزل ہے اس کا نام ہم نے کھٹ رکھا ہے۔ جسے تم بھات کہتے ہو، اسے ہم دھناسری کہتے ہیں، جسے تم صغیر کبیر کہتے ہو، اسے ہم ایمن کہتے ہیں۔ جسے تم عشاق عراق اوج کہتے ہو، ہم اسے گنکلی کہتے ہیں۔ جسے تم حسینی دوگا تو اور عجم کہتے ہو، ہم اسے سارنگ اور کافی کہتے ہیں۔ جسے تم سہ گاہ چہار گاہ، مایہ بستہ نگار زنگولہ مغلوب کہتے ہو، ہم اسے ٹوری کہتے ہیں۔ جسے تم مجیرسی یا عراق کہتے ہو، ہم اسے نمازہ کہتے ہیں۔ جسے تم عشاق کہتے ہو، ہم اسے سارنگ اور نسیت کہتے ہیں۔ جسے تم فرغنہ کہتے ہو، اسے ہم گورا اور گنکلی کہتے ہیں۔

میں نے ایرانی اور ہندی راگوں کی ترکیب بھی مختصر دکھا دی ہے، جو حضرت امیر نے ایران کے استادوں کو سمجھائی ہے۔ ورنہ بہت سے راگ راگنیاں ہیں، جن کی حضرت امیر نے ایران اور ہندوستان کے راگ راگنیوں سے تطبیق کی ہے۔ پھر آپ نے کنٹھ (حلق) سے ادا کر کے انہیں یہ بھی سمجھایا کہ جسے تم نشید کہتے ہو، ہندی والے اسے الاپ کہتے ہیں، جس کا نام تم نے مدر رکھا ہے، اسے ہمارے ملک میں ٹیپ کہتے ہیں۔ جسے تم لوگ ہشد کہتے ہو، اسے یہاں والے شرج یا کھرج کہتے ہیں، جس کانام تمہارے ہاں زمزمہ ہے، ہم اسے گٹکری کہتے ہیں۔

آپ کے عہد میں ایک گویا گوپال نامی دکن سے دہلی آیا۔ اور کمال کے باعث سے دربار شاہی تک پہنچا۔ ایسا گایا ایسا گیا کہ بادشاہ اور تمام حاضرین حیران ہو گئے۔ بادشاہ نے اپنے گویوں کی طرف اشارہ کیا کہ تم بھی گاؤ اور اس کے کمال کا جواب دو۔ مگر سب نے کانوں پر ہاتھ دھر کر کہا، اس انداز کا گانا ہم لوگ نہیں جانتے۔ بادشاہ کو بدمزہ دیکھ کر حضرت امیر نے کہا، اگر اجازت ہو تو میں کچھ عرض کروں۔ بادشاہ نے کہا ضرور۔ آپ نے گوپال کے گانے کی ترکیب فوراً ہی اُڑالی اور اسی ڈھنگ میں اپنی طبیعت سے ترانہ اور قلیان ایجاد کر کے سنایا تو گوپال کے ہوش اڑ گئے۔ حضرت امیر نے کہا، استاد جی! ان دونوں چیزوں کا نام بتائیے کیا ہے۔ گوپال بڑا ہنر شناس تھا۔ اس نے کہا، کبھی پہلے اس قسم کی چیز سنی ہو تو بتاؤں۔ نہ یہ دہرپد ہے، نہ چترنگ ہے، نہ ٹروت ہے۔ یہ تو دنیا سے نرالی چیزیں ہیں۔ آپ کے حلق میں طوطی بیٹھا ہے۔ وہ نورانی بولی بول رہا ہے۔ آپ ہی بتائیے ان کا کیا نام ہے۔

حضرت امیر نے فرمایا، ایک کا نام ترانہ ہے اور دوسرے کا نام قلیان۔ ان کا مرتب کرنا اور گانا اور تال سم کا جاننا ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ جب آپ کا کمال گوپال کو پورا پورا معلوم ہو گیا تو اس نے آپ کے سامنے کان پکڑ کر کہا، آپ کو نائک کا لقب پھبتا ہے۔ یہ آپ کا ہی حصہ ہے کہ گھڑی بھر میں ایجاد بھی کریں، اور اسے ادا بھی کر کے دکھائیں۔ بادشاہ بھی بہت خوش ہوا۔

آپ کے یہ کمالات تو ہمیں سب تسلیم ہیں، مگر کوئی یہ تو ٹھیک ٹھیک بتائے کہ حضرت امیر خسروؒ کے وقت میں ہندوستان کے اندر کون سی یونیورسٹی تھی، جس میں عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، بھاشا اور تمام علوم اور فن موسیقی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ جن میں حضرت امیر نے تعلیم پاکر یہ کمال حاصل کیا تھا۔ اس کا جواب چارو ں طرف سے یہی ملےگا کہ اس وقت ایسا کوئی مدرسہ یا کالج نہیں تھا، تو میں ضرور کہوں گا اور سب اہل عقیدت اتفاق کے ساتھ یہی کہتے آئے ہیں کہ حضرت امیر میں جو اس قدر ہنر گستری تھی، یہ حضرت محبوب پاک رضی اللہ عنہ کا فیضان تھا۔

آہن کہ بپارس آشنا شد
فی الحال بصورت طلا شد

نئی روشنی کے دلدادہ اسے نہیں مانیں گے کیونکہ ’’فیہ ظلمٰت وَّ رَعدٌ وَبَرْقٌ‘‘ مگر میرا اس پر ایمان ہے۔ حضور محبوب پاک نے ایک بار آپ کو کچھ اداس دیکھا تو سبب دریافت کیا۔ آپ نے عرض کیا، آج مجھے حضرت خضر علیہ السلام سے نیاز حاصل ہوا تھا۔ میں نے حضرت سے کہا، آپ نے موسیٰ علیہ السلام کو باطنی تعلیم دی ہے۔ کچھ اس فقیر کو بھی فیض پہنچائیے۔ حضرت نے فرمایا، تم کیسا فیض چاہتے ہو۔ میں نے کہا، فصاحت بلاغت کا۔ حضرت خضرنے فرمایا، یہ فیض میرے لعاب دہن میں امانت تھا۔ وہ شیخ سعدی کو دے چکا۔ اس سوکھے جواب پر میرا دل پکڑا گیا۔ حضور محبوب پاک نے فرمایا، اتنی سی بات کے لئے رنجیدہ بیٹھے ہو۔ آؤ میں تمہیں اپنا لعاب دہن کھلا دوں۔ حضرت امیر سلام کر کے حضور کے پاس جا بیٹھے۔ حضرت ممدوح نے انگشت مبارک لعاب دہن میں تر کر کے حضرت امیر کے ہونٹوں کو لگادی۔ اللہ اللہ وہ تری آب حیات یا اکسیر الٰہی تھی۔ جس نے آن کی آن میں الم نشرح لک صدرک کی کیفیت دکھا دی۔ آج تک اسی فیض کی برکت ہے، جو حضرت امیر کے کمالات کی ہندوستان سے لے کر یورپ تک دھوم ہے۔ اور آپ کی تصانیف ولایت کے میوزیم اور لائبریریوں میں جگا جگا کر رکھی جاتی ہے۔

اعجاز خسروی جب ایران پہنچی تو اس سمندر کو دیکھ کر وہاں کے انشاء پرداز اور شاعر چکرا گئے۔ جواب تو اس کا کسی سے دیا نہ گیا۔ مگر کھسیانے ہوکر یہ کہہ دیا کہ ’’ایں زبان مانیست۔‘‘

مجھے اتنی مہلت نہیں ہے کہ میں حضرت امیر کی نظم و نثر کے کمالات پر ریویو کروں، اور بتاؤں کہ آپ کی فارسی کیا ہے اور زابلی، کابلی، سعدی، پہلوی، دری، وغیرہ ایرانی زبانوں میں سے آپ کے کلام میں کون کون سی زبانیں آئی ہیں اور آپ کے کلام نے کیا قبولیت پائی ہے۔ صرف اتنا لکھتا ہوں کہ آپ کی یہ شان ہے کہ حضور محبوب پاک نے فرمایا، خدا اگر مجھ سے پوچھےگا کہ نظام الدین تو دنیا میں سے میرے لئے کیا تحفہ لایا ہے تو امیر خسرو کو پیش کروں گا۔

حضرت امیر اور آپ کے کمالات زندہ ہیں اور آپ ہر محفل میں تشریف رکھتے ہیں۔ صوفیہ افضل الفوائد اور راحۃ المحسنین کو پڑھتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔ مکتبوں کے بچے آپ کی خالق باری کا سبق لیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے آپ کی پہیلیاں ایک دوسر ے کو سناتے ہیں اور اپنا جی بہلاتے ہیں۔ لڑکیاں ساون میں آپ کے گیت جھولے میں بیٹھ کر گاتی ہیں اور اپنے چاؤ کو پورا کرتی ہیں۔ گھر کی بیٹھنے والی عورتیں پتی ورتا اپنے خاوندوں کے فراق میں حضرت امیر کے گیت گاتی ہیں اور اپنے درد دل کا علاج کرتی ہیں۔ سبحان اللہ امیر صاحب کی بھاشا کی لطافت کیا لکھی جائے۔ اس مصرعہ کو پڑھ کر مزہ لیجئے۔ سکھی پیا کو جو میں نہ پاؤں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں۔

یہ معلوم ہوتا ہے کہ کنہیا جی مہاراج دو ارکا کو سدھار گئے ہیں، اور رادھا جی فراق میں گھبراتی ہیں اور یہ بول اپنی زبان سے کہہ رہی ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت محض بھاشا جانتے تھے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ نائک کے لئے لازم ہے کہ وہ موسیقی علماً اور تفنناً دو نوں طرح جانے۔ اس لئے آپ ضرور سنسکرت کے ماہر تھے۔ مگر اپنے مذہبی اور قومی کمالات کے سامنے اس سے زیادہ کام نہیں لیا۔ آپ اس ہمہ دانی اور قابلیت پر بڑے منصف مزاج اور ہنر مند تھے۔

جب حضرت حسن علاء سنجری آپ کے پیر بھائی نے فوائد الفوااد شریف لکھی تو آپ کو بہت پسند آئی۔ آپ نے حسن علاء سنجری سے کہا، میں اپنی ساری تصانیف پر آپ کا نام ڈال دوں اور آپ انہیں لے لیں، اور یہ رسالہ مجھے آپ عنایت کردیں۔ میری ساری تصانیف سے آپ کی فوائد الفوائد اچھی ہے۔ حضرت حسن نے کہا، بہت اچھا۔ آپ کی تصانیف آپ کو مبارک رہے، اگر آپ کو میری کتاب پسند ہے تو میں نذر کردوں گا۔ مگر میں حضرت پیرو مرشد سے پوچھ لوں۔ کیونکہ میں اسے حضور میں گزران چکا ہوں۔ اگر بغیر اجازت حضرت کے اس میں کچھ تبدیلی کروں گا توباز پرس ہوگی۔ حضرت امیر نے کہا بہت مناسب ہے۔ حضرت سے استمزاج کر لیجئے۔ حضرت حسن علاء سنجری نے موقعہ پاکر یہ حال حضور محبوب پاک کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم اس کا جواب امیر خسرو ہی کو دے دیں گے۔

حضرت امیر حضور والا کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے مسکرا کر فرمایا، امیر! ماشاء اللہ تم تو ملک الشعراء، طوطی ہند ہو۔ تمہاری تصنیف کا کیا ٹھکانہ ہے۔ گنتی میں بھی نہیں آتیں اور بیچارے حسن نے مرکھپ کر ساری عمر میں ایک رسالہ لکھا ہے، وہ تمہارے کہنے کو نہیں ٹال سکتا ہے، وہ تمہیں دے دےگا مگر میرے نزدیک تو یہ اسی کو بخش دو۔ شاید اسی کتاب سے اسے کچھ شہرت ہوجائے۔ غرض حضرت امیر کے کمالات کے بیان کرنے کو بڑا وقت درکار ہے۔

حضرت میر عبد الواحد بلگرامی واسطی زیدی رحمۃ اللہ علیہ کتاب سبعہ سنابل میں فرماتے ہیں کہ جب حضرت امیر خسروؒ دہلوی نے اس جہان فانی سے انتقال فرمایا تو دہلی میں تہلکہ مچ گیا۔ بادشاہ سے لے کر فقیر تک آپ کے سوگ میں تھے۔ شیخ رکن الدین سہروردی ایک کامل بزرگ تھے۔ آپ نے کہا افسوس ہے، آج امیر خسروؒ طوطیٔ ہند ملک الشعراء اس جہان سے گزر گئے۔ ان کے صاحب کمال ہونے میں تو شک نہیں ہے مگر بادشاہوں کی صحبت میں رہے، اور ان کی تعریف میں بہت سے قصیدے لکھے ہیں۔ اس لئے ہمیں خیال ہے کہ دیکھئے خدا سے کیسی بنتی ہے۔ ان کے جنازے پر جاکر ہمیں ان کی مغفرت کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ یہ کہہ کر اٹھے اور جبہ درویشی پہن اور مریدوں کو ساتھ لے کر تشریف لے آئے۔ اور حضرت امیر کے جنازے کے پاس بیٹھ گئے۔ ابھی دعا کے لئے ہاتھ نہ اٹھائے تھے، جو حضرت امیر اپنے کفن مبارک کو کھول کر اٹھ بیٹھے اور ہنس کر کہا۔ شیخ رکن الدین صاحب !،

ما بہ نعمت ہائے پیر خود کفایت کردہ ایم
نیست مارا حاجتِ آمرزشِ آمرزگار

یعنی مجھے اپنے پیر و مرشد کا وسیلہ کافی ہے۔ کسی اور کی بخشش اور سفارش کی حاجت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر آپ پھر لیٹ گئے اور شیخ رکن الدین صاحب کو معلوم ہو گیا کہ حضرت امیر کیا شان رکھتے ہیں۔ بارک اللہ۔ حضرات چشت بھی کیا چیز ہیں۔ آپ ہی مردہ آپ ہی مسیحا۔ چاہے مر جائیں، چاہے جی جائیں۔

غدر ۱۸۵۷ء سے پہلے جب حضرت خواجہ الہ بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ سلیمان قدس سرہ العزیز کے پوتے زیارت کے واسطے دہلی آئے توبہادر شاہ مرحوم آپ کے لینے کے لئے حضرت شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہ العزیز کی درگاہ تک گئے۔ اور لال قلعہ میں آپ کی دعوت کی۔ کھانے کے بعد بہادر شاہ نے خواجہ بخش صاحب سے ہاتھ باندھ کر کہا، حضور دعا فرمائیں کہ میری سلطنت کو ایسا عروج ہو جائے جیسا کہ جلال الدین اکبر اور اورنگ زیب کی سلطنت کو تھا۔ حضرت نے اس کے جواب میں فرمایا، جس دن سے تم لوگوں نے محمد شاہ پیا کی قبر پر سنگ مرمر کا پنجرہ بنا کر کھڑا کیا ہے، اسی دن سے حضور محبوب پاک اور تمام خواجگان چشت مغلوں سے ناخوش ہو گئے ہیں۔ اور لال قلعہ پر زوال آ گیا ہے۔ کیونکہ تم نے عاشق معشوق کے نظارے میں خلل ڈال دیا اور پردہ لگا دیا۔ اگر تم اس پنجرے کو اکھڑوا کر پھینک دو تو میں دعا کروں۔ بادشاہ کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ حضرت خواجہ الہ بخش صاحب نے فرمایا، تو مجھ سے دعا بھی نہیں ہو سکتی۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.