کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا
کماں ہوا ہے قد ابرو کے گوشہ گیروں کا
تباہے حال تری زلف کے اسیروں کا
ڈھلے ہے جس پہ دل تس کا کیا ہے ظاہر اسم
وہی ہے وہ کہ جو مرجع ہے ان ضمیروں کا
ہر ایک سبز ہے ہندوستان کا معشوق
بجا ہے نام کہ بالم رکھا ہے کھیروں کا
مرید پیٹ کے کیوں نعرہ زن نہ ہوں ان کا
برا ہے حال کہ لاگا ہے زخم پیروں کا
برہ کی راہ میں جو کوئی گرا سو پھر نہ اٹھا
قدم پھرا نہیں یاں آ کے دست گیروں کا
وہ اور شکل ہے کرتی ہے دل کو جو تسخیر
عبث ہے شیخ ترا نقش یہ لکیروں کا
سیلی میں جوں کہ لٹکا ہو آبروؔ یوں دل
سجن کی زلف میں لٹکا لیا فقیروں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |