کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
خیال ان کا پرے ہے عرش اعظم سے کہیں ساقی
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں
بسان نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے ان دنوں پہروں
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
کہیں ہیں صبر کس کو آہ ننگ و نام ہے کیا شے
غرض رو پیٹ کر ان سب کو ہم یک بار بیٹھے ہیں
کہیں بوسے کی مت جرأت دلا کر بیٹھیو ان سے
ابھی اس حد کو وہ کیفی نہیں ہشیار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جسے پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں
نئی یہ وضع شرمانے کی سیکھی آج ہے تم نے
ہمارے پاس صاحب ورنہ یوں سو بار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |